سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کیس میں درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی، وفاق اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو درخواست قابل سماعت ہونے کے حوالے سے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے این آر او کیس کی سماعت کی جس میں ملک قیوم کی جانب سے بیان حلفی عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بحث کریں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ابھی تک مکمل کاغذات فراہم نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: وزارت قانون کا 'این آر او' سے لاتعلقی کا اظہار

فیروز شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ این آر او کسی فیصلے میں کہا گیا کہ سوئس بینکوں میں دولت پاکستانیوں کی ہے جبکہ باہر ساری دولت آصف زرداری لے گئے، انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کے پیر نے بھی کہا تھا کہ ان کے 6 کروڑ ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ ساری اخباری باتیں ہیں اگر کوئی مواد موجود ہے تو بتائیں یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ آصف علی زرداری کے وکیل کہتے ہیں کہ ان کے موکل تمام مقدمات میں بری ہو چکے ہیں، کیا بریت کے بعد 184 (3) کے تحت دوبارہ مقدمہ کھولا جا سکتا ہے، آپ بتائیں دستاویزات کہاں پڑی ہیں ہم سنی سنائی باتوں پر فیصلہ نہیں کریں گے۔

اس موقع پر فیروز شاہ گیلانی نے کہا کہ یہ معلومات نیب نے فراہم کرنی ہیں کیونکہ معلومات مختلف ریفرنس میں پڑی ہیں، جس پر آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان کے موکل ایک طویل ٹرائل کے بعد بری ہوئے، 6 کروڑ ڈالر آصف زرداری کے نام پر نہیں تھے، وہ 8 سال جیل میں رہے، معاملہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے آصف علی زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے بیان حلفی مہیا کیے جائیں، اس کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر دلائل دوں گا۔

عدالت نے درخواست گزار، نیب اور وفاق کو درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: ’این آر او انتقامی سیاست کے خاتمے کے لیے بنایا تھا‘

واضح رہے کہ چند ماہ قبل قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ 'نیب ریکارڈ کے مطابق ملک قیوم نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا اور الزام غلط ہونے کے باعث ملک قیوم کے خلاف ہونے والی انکوائری ختم کردی گئی تھی۔'

جواب میں کہا گیا تھا کہ 'سابق صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس کیسز نہیں کھولے جاسکتے، حکومت پاکستان کی اپیل زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے سوئس حکام نے کیس کھولنے سے معذرت کی، جس کے بعد آصف زرداری کے خلاف چلنے والے کیسز کی فہرست بھی تلف کردی گئی ہے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں