اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے مزید 68 ملزمان کو رہا کرنے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا جبکہ ملزمان دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی سزاؤں کو بحال کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 74 ملزمان کی رہائی روکنے کا حکم

عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو 27 اے کا نوٹس جاری کرتے ہوئے جیل سپرنٹنڈنٹس کو ملزمان کی رہائی سے بھی روک دیا۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کا جرم ثابت ہونے پر 68 دہشت گردوں کو سزائیں سنائی گئیں تھیں، جس پر سزاوں کے خلاف دائر اپیلیں پشاور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔

اپیلوں پر سماعت کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے تمام ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے اپیلیں دائر کی گئیں، جسے سماعت کیلئے منظور کیا گیا۔

اپیلوں میں حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے مجرمان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے حقائق کو مد نظر نہیں رکھا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاورہائیکورٹ: فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم کی سزا معطل

اس سے قبل سپریم کورٹ نے وفاق کی اپیلوں پر حتمی فیصلہ آنے تک دہشت گردوں کو رہا نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 نومبر 2018 کو سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ پھانسی اور عمر قید کے 74 ملزمان رہا کرنے کے حکم پر عمل درآمد روکتے ہوئے عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرلیا تھا۔

واضح رہے کہ 18 اکتوبر کو فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے 74 مبینہ دہشت گردوں کو پشاور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں بری کردیا تھا۔

ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی، جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں