۔— اے ایف پی
۔— اے ایف پی

پچھلے دنوں تحریر اسکوئر پر مصر کے سب سے پہلے جمہوری طور پر منتخب اور مقبول صدر کو فوج کے حکومت چھوڑ کر چلے جانے کے حکم پر جو جشن منایا گیا وہ انتہائی بے محل اور حد درجہ پریشان کن تھا-

یہ ضرور ہے کہ ان کے خلاف دارالحکومت اور دوسرے کئی شہروں کی سڑکوں پر عوامی مظاہروں نے اس تاثر کو تقویت پہنچائی تھی کہ محمد مرسی جو اخوان المسلمین کے ایک رہنما کے طور پر چھوٹی سی اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے تھے، جلد ہی انتہائی متنازعہ شخصیت بن گئے تھے-

انتخابات کے بعد انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ تمام مصریوں کے صدر کے طور پر اپنے فرائض انجام دینگے لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے آپکو صرف اسلامی تشخص کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا-

زیادہ تر وہ معاشی مسائل اور الجھنیں، جن کی وجہ سے حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف ایک عوامی بغاوت بھڑک اٹھی تھی، ابھی تک حل طلب تھے بلکہ بعض زیادہ شدید ہو گئے تھے- اس کے علاوہ کبھی کبھی ان کے طرزعمل پر آمرانہ رویہ کا بھی گمان ہوتا تھا-

مرسی نے ان لوگوں کے ساتھ بھی مصالحانہ رویہ کے مشورہ کو ٹھکرا دیا جن لوگوں نے ان کو ووٹ صرف اس لئے دیا تھا کہ ان کے مقابلے میں حسنی مبارک کی حکومت کے خیر خواہ امیدوار تھے-

اور ایسے بھی تھے جنہوں نے بلاشبہ احمد شفیق کو ووٹ دیا اسلئے نہیں کہ پرانی حکومت سے انھیں پرخاش تھی بلکہ وہ اخوان المسلمین کو اقتدار سے باہر رکھنا چاہتے تھے، لیکن وہ لوگ کسی گنتی میں نہیں تھے-

پارلیمنٹ سے باہر جو حزب اختلاف ہوتی ہے اس میں تبدیلی کی خواہش کا ادراک کوئی اتنی عجیب بات نہیں ہے لیکن اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینے کا طریقہ اور اسکی عوامی حمایت زیادہ بڑا مسئلہ ہے-

دنیا کی تاریخ میں فوجی انقلاب کی عوامی حمایت کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں لوگ جلد ہی دوبارہ سوچنے پر مجبور ہو گئے- مثال کے طور پر 1999ء میں نوازشریف کی حکومت پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوئی تو لوگوں نے پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر خوشیاں منائیں-

ایک طرح سے، یہ خوشی کا احساس صحیح بھی تھا-

یہ واقعی ایک بدترین انتظامیہ تھی جسکو ایک بڑا مینڈیٹ ملا تو تھا لیکن بہت ہی کم تعداد میں لوگوں نے انتخابی عمل میں حصّہ لیا تھا- معیشت کی حالت دگرگوں تھی- وزیر اعظم بنیاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے اورحزب اختلاف منتشر تھی-

دوسری طرف، جہاں تک فوجی حکومتوں کا تعلق ہے تو پاکستان کو بمشکل ہی بےداغ سرزمین کہا جا سکتا ہے اورگزشتہ دو، تین، اگر یحییٰ خان کے دورکو بھی پہلے دو سے مختلف سمجھیں تو-- تو وہ اچانک ہی گر پڑیں-

اپنے زمانے میں 1958 اور1977 کے انقلاب کا آبادی کے ایک حصّے نے ایک خوشگوارتبدیلی کے طور پر خیرمقدم کیا تھا جو کہ آخرکار ایک نفرت انگیز عمل سمجھا گیا-

اس دوران میں حیرت انگیز طور پر دی وال اسٹریٹ جرنل نے مصر میں فوجی انقلاب کو سراہتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ "مصری عوام خوش قسمت ہونگے اگر ان پر حکومت کرنے والے جنرل چلی کے صدر پنوشے کے نقش قدم پر چلیں جنہوں نے افراتفری کے دوران اقتدار سنبھال کر آزاد معیشت کے اصلاح پسندوں کی خدمات کے ذریعہ چلی میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی"-

یہ نہ بھولیں کہ چلی میں جمہوریت پنوشے کے بداندیش اور بدنام دور حکومت کے باوجود، نہ کہ اس کی وجہ، سے آئی-

روپرٹ مرڈوک کے جرنل کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دیدہ دلیر فاشسٹ پنوشے نے شکاگو یونیورسٹی کے ملٹن فرائیڈمین کی معاونت کا خیر مقدم کیا اور تیزی کے ساتھ سالویڈورالنڈے کی جمہوری منتخب کردہ حکومت کی سوشلسٹ اصلاحات کا پہیہ الٹ دیا- اس کے نیو لبرل سرمایہ داری کے تجربہ کی بنا پر لاطینی امریکہ کے بہت سارے ملکوں نےعسکریت پسندی کے سانچہ کا تجربہ کیا-

براعظم کو بحال ہونے میں خاصا طویل عرصہ لگا- وہ بھی اس صورت میں کہ انکل سام کی توجہ ان کی طرف نہ تھی- جس کی بڑی وجہ ونیزویلا میں ہیوگو شاویزکی پیش قدمیاں تھیں جنہوں نے فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد جمہوریت کے ثمرات کا سبق سیکھا-

یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ مشیل بیشلے، چلی کی سابقہ صدر اور شائد مستقبل کی بھی، پنوشے کی حکومت میں اذیت رسانی کا شکار رہیں اور ان کے والد کو قتل کر دیا گیا-

اس کی گونج، پاکستان کے کانوں تک بھی پہنچنی چاہئے کیونکہ یہاں تو بیٹی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا-

مرسی کی گرفتاری کے بعد مصر میں کسی کو کچھ نہیں پتہ ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں لیکن پیر کے دن ان کے پچاس حامی اس وقت ہلاک کر دئیے گئے جب اخوان کے ایک گروہ نے ایک قلعہ پر ہلا بول دیا جس کے بارے میں انہیں شبہ تھا کہ مرسی وہاں قید ہیں-

لوگوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ مصر کے یہ واقعات، اسلام پسندوں کے اس شبہ کو تقویت دینگے کہ یہ ان کو جمہوری سلسلہء عمل سے باہر رکھنے کی سازش ہے کیونکہ 1992میں الجیریامیں بہرحال اسلامک سالویشن فرنٹ کی کامیابی کو فوجی کارروائی کے ذریعہ سے ناکام بنا دیا گیا تھا اورطویل عرصہ تک وہاں خانہ جنگی جاری رہی تھی-

مغربی طاقتوں نے بڑی حد تک اس شدید ناانصافی کو مکمل طورپر نظرانداز کر دیا- اسی طرح حالیہ دنوں میں فلسطینی علاقوں میں حماس کی انتخابی کامیابی کی اہمیت کوکم کرنے کی سازش کی گئی-

اسی لئے یہ امرباعث حیرت نہیں ہوگا کہ اس مصری تجربہ کے نتیجے میں اسلام پسند، جمہوری عمل سے باہر نکل جائیں اور دوسرے طریقوں سے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کریں-

یقینا مرسی کو ایک غیر متنازعہ راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا جب ان کو پتہ چل گیا تھا کہ گرما گرم مباحثے عرب اسپرنگ کو ایک بے یقین موسم گرما کی طرف لئے جا رہے ہیں-

لیکن، مبارک کی حکومت کے تیس سال بعد جس کے دوران فوج اپنےاثاثوں کو مکمل طورپر مستحکم کر چکی تھی، یہ حقیقت کہ اپنے چار سالہ دور حکومت کے پہلے سال ہی میں وہ معاشی محاذ پر ناکام رہے اورجمہوری تجربے کی بیخ کنی کا جواز فراہم کیا-

نگراں صدر عادلی منصور نے حال ہی میں ایک نئی قانون ساز اسمبلی اور ساتھ ہی انتخابات کا ایک ٹائم ٹیبل دیا ہے لیکن اس بات کے وسیع امکانات ہیں کہ اس دوران پانی کا دھارا غلط سمت اختیار کر سکتا ہے- ایسا کئی جگہ اکثر ہوا ہے کہ جمہوریت پسندوں کے ناقص مشوروں سے اپنی مرضی کے فوجی افسرچنے گئے (پاکستان میں ضیاءالحق اور چلی میں پنوشے)-

اس بات کا بھی امکان ہے کہ مصرکے لبرل عناصر کی بڑی تعداد کو اگر اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ کیا غلطی کر بیٹھے ہیں تو وہ شائد یہ غلطی دوبارہ نہ کریں-

شام کے حکمران اسد کی جانب سے مصر میں رونما ہونے والے واقعات کی تعریف و توصیف ان لوگوں کی یاد دھانی کیلئے کافی ہے جنہوں نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا تھا- ٹونی بلئیرکی جانب سے اور امریکی انتظامیہ کے ارکان کے لئے کہ کہیں نہ کہیں سخت غلطی کا ارتکاب ہوا ہے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں