سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کے نتیجے میں48 گھنٹوں کے دوران کم ازکم 8 نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوگئے۔

تمام بچوں کو دور دراز علاقوں سے مٹھی کے سول اسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا جہاں وہ جاں بر نہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: بینکوں کو تھر کے متاثرین سے قرض وصولی منسوخ کرنے کی ہدایت

اسپتال کے ڈی ایچ او نے بتایا کہ صرف مٹھی سول اسپتال میں غذائی قلت اور وائرل انفیکشن کے نتیجے میں گزشتہ 12 مہینوں کے دوران بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 561 تک پہنچ چکی ہے۔

متاثرہ بچوں کے والدین نے شکایت کی کہ ہسپتال میں موجود طبی عملے کا رویہ مایوس کن ہے اور ہسپتال انتظامیہ نے ایک مرتبہ پھر بیمار بچوں کو حیدرآباد اور کراچی کے ٹیچنگ ہسپتال میں منتقل کرنے کے لیے فری ایمبولینس سروس سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: تھر: غذائی قلت کے باعث مزید 6 بچے جاں بحق

دوسری جانب عوامی تحریک کے ارکان نے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفکیشن سے جاں بحق ہونے والے بچوں سے متعلق احتجاجی مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ تھر کے مختلف علاقوں سے تقریباً 50 نوازئیدہ بچے ہسپتال میں لائے گے۔

عوامی تحریک کے رہنماؤن اور اراکان نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ سندھ حکومت تھر میں انسانی بحران کی ذمہ دار ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت مستقل حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف گندم کی تقسیم سے تھری عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تھرپارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفکیشن سے مزید 6 بچے جاں بحق

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ سال اپریل میں مٹھی میں 5 بچوں کی ہلاکت پر ازخود نوٹس کے بعد محکمہ صحت کے مقامی عہدیداروں کو اس حوالے سے میڈیا کو تفصیلات جاری نہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

تھر میں بچوں کی صحت اور غذا کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ہینڈز کے سربراہ ڈاکٹر شیخ تنویر احمد سمیت ماہرین صحت اور بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تھر میں کم عمری میں شادی، بچوں کی غذائی قلت، غربت اور دیگر مسائل نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے اسباب ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں