تھر کول منصوبے کے فعال ہونے سے قبل ہی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) نے کہا ہے کہ وہ مستقبل کے منصبوں کے لیے اس منصوبے سے بجلی کی پیداوار میں کمی کی خواہاں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) اینگرو سندھ شمس الدین شیخ نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے صحافیوں سے پروجیکٹ سائٹ پر بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 660 میگا واٹ منصوبے کا 92 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ اس عرصے تک اس کی تکمیل صرف 83 فیصد تک رکھی گئی تھی، جبکہ اس منصوبے کے لیے مختص ہونے والے بجٹ سے بھی 20 فیصد کم بجٹ خرچ ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تھر اور اس کی زمین میں موجود ذخائر اور اس کی قدر نہ جاننے کے خطرے کے باوجود یہ کام ممکن ہوسکا ہے۔

مزید پڑھیں: تھر کول منصوبہ: 'اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچانا ممکن'

سرمایہ اور منافع میں کمی سے متعلق بات کرتے ہوئے شمس الدین شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا پاور سیکٹری بینک کرپٹ ہوگیا تھا اور سرمایہ کاروں کے لیے مشکل ہوتا جارہا تھا کہ وہ ایسے نظام میں اپنی توانائی صرف کریں جس پر خود 7 سو سے لے کر 12 سو ارب روپے کے گردیشی قرضے موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جیبیں خالی ہوچکی ہیں، بجلی کی مہنگی پیداوار نے نیشل گرڈ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے‘۔

ایس سی ای ایم سی کے سی ای او نے کہا کہ بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہیں اور تقسیم کاری کے نظام میں بہت زیادہ نقصان ہے جس میں بجلی چوری بھی اس کا حصہ بن چکی ہے۔

اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے نرخ بڑھتے جائیں گے ویسے ویسے اس کی چوری بھی بڑھتی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: تھر کول منصوبے میں بدعنوانی پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل

شمس الدین شیخ نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے اور انہیں عوام کے لیے مناسب بنانے کے لیے حکومت، کمپنیوں، سرمایہ کار اور صارفین کو مل کر جامع کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب بجلی کی پیداوار قابلِ تجدید ذرائع سے کی جارہی ہے جس کی وجہ سے بجلی کے نرخوں میں کمی آرہی ہے جو تقریباً 5 روپے 30 پیسے سے لے کر 5 روپے 70 پیسے فی یونٹ تک ہوگئے ہیں جبکہ کوئلہ اور فوزل فیول کی وجہ سے اس کی قیمت 10 روپے 75 پیسے تک تھی۔

شمس الدین شیخ نے کہا کہ اب توانائی کا مستقبل قابلِ تجدید بجلی کے ذرائع میں ہے، کیونکہ آئندہ 20 سے 25 سالوں کے اندر فوزل فیول سے بجلی کی پیداوار کا طریقہ بالکل ختم ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: بجلی کے نرخ میں اضافے کا امکان، حکومتی منظوری کا انتظار

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے نرخ بہت زیادہ کر دیے تھے تاہم اب بجلی کی قیمت کو درست کرتے ہوئے اس میں کمی کی جارہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 660 میگا واٹ کا یہ منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے سے پیداوار میں کمی کے خواہش مند ہیں تاکہ کوئلے کو کھاد بنانے یا دیگر مقامی امور میں استعمال کیا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں