اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز کی رہائی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نیب کی اپیل پر سماعت کی، اس دوران شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھیں گے کہ اس معاملے پر لارجر بینچ بنایا جائے یا نہیں، ہم اس معاملے کو قانون کے پیرائے میں دیکھیں گے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ سزا معطلی کیس: کیوں نہ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کردیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دونوں فریقین کے وکلا اس معاملے پر اپنی قانونی معروضات آج ہی عدالت میں پیش کریں، پہلے جو اپیل میں معروضات پیش کی ہیں وہ طویل ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں وہ قانونی نکات تحریری طور پر دیں جن پر ہم اپیل سماعت کے لیے منظور کریں۔

سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ صرف ایک انسداد دہشت گردی سے متعلق کیس میں ہارڈشپ کے اصول کا نفاذ کیا جبکہ اس نوعیت کے کیسز میں ضمانتیں منظور ہوتی رہی ہیں، جس چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ مجرمانہ طریقہ کار کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے کچھ اصولوں کو نظر انداز کیا، یہ صرف ضمانت منظوری کا معاملہ نہیں بلکہ سزا معطلی کا ہے، دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا سزا معطل ہوسکتی ہے،کیا اصول قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ خصوصی عدالت نے مخصوص حالات میں فیصلہ دیا، ہائیکورٹ کیسے خصوصی عدالت کی سزا معطل کرسکتی ہے؟ دیکھنا ہے کہ اس بینچ نے فیصلہ کرنا ہے یا پھر لاجر بینچ تشکیل دیں۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے کیا ممکنات ہوسکتے ہیں، وکلا بتائیں، ہم فیصلہ معطل کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹھیک کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ سزا کی معطلی کا ہے لیکن ہر کیس کی اپنی ایک نوعیت ہوتی ہے، سزائے موت کے کیسز میں عدالت نے سزائیں معطل کیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے عدالتی فیصلوں پر انحصار کر رہے ہیں، اگر آصف سعید کھوسہ کو اس بینچ کا حصہ بنایا جائے تو آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بے اعتمادی ختم کرکے عدالتوں پر اعتماد کرنا چاہئیے، ہم لارجر بینچ بنا سکتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ لاجر بینچ کی تشکیل پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

بعد ازاں ان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ میں نے بیرونی ملک جانا ہے کیوں نہ وطن واپسی پر مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کر دیا جائے، تب تک میری طبعیت بھی سنبھل جائے گی، مجھے میرے ڈاکٹر نے کہا ہے جب خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوتے ہیں میری دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کر دیتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ احتساب عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت چل رہی ہے 2 دسمبر کو ممکن نہیں ہوگا کیس کی سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کی جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب کی اتنی محبت سے کی گئی بات کا انکار نہیں ہوتا، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لندن فلیٹس سے متعلق میرے خلاف کوئی شواہد نہیں، مریم نواز

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

تاہم 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

بعد ازاں 22 اکتوبر کو نیب نے رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں