کابل میں خود کش حملے کے نتیجے میں 6افراد ہلاک

12 نومبر 2018
افغان سیکیورٹی اہلکار کابل میں ناکہ لگا کر لوگوں کی تلاشی لے رہے ہیں— فائل فوٹو: اے پی
افغان سیکیورٹی اہلکار کابل میں ناکہ لگا کر لوگوں کی تلاشی لے رہے ہیں— فائل فوٹو: اے پی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان مخالف ریلی کے قریب خود کش حملے کے نتیجے میں کم از کم 6 افراد ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔

کابل پولیس کے سربراہ بشیر مجاہد نے بتایا کہ خود کش بمبار کو پولیس نے کھوج لیا تھا لیکن اس سے قبل کہ وہ اس تک پہنچتے، اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا کہ دارالحکومت کابل میں صدارتی محل کے قریب واقع ہائی اسکول کے سامنے خود کش دھماکے میں 6افراد ہلاک ہو گئے۔

مزید پڑھیں: امریکا افغانستان میں ناکام ہوچکا، روسی سفیر

یہ دھماکا ایک ایسی جگہ پر کیا گیا جہاں سے چند میٹر کے فاصلے پر صوبہ غزنی میں طالبان کے حالیہ حملوں کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا اور عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

وزارت صحت کے ترجمان واحد مجروح نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں 22افراد زخمی بھی ہوئے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز اور عوام پر ہونے والے اکثر حملوں میں طالبان ملوث ہوتے ہیں لیکن افغانستان میں داعش نے خود کو طالبان سے منسلک کر لیا ہے اور وہ بھی سیکیورٹی فورسز اور عوام کو وقتاً فوقتاً نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

ادھر افغان قانون دان علی اکبر قاسمی نے کہا کہ صوبہ غزنی میں اتوار سے ہونے والی لڑائی میں اب تمام تر توجہ ضلع جگہوری پر مرکوز کی جا چکی ہے جہاں اب تک 20پولیس اہلکار مارے جا چکے ہیں۔

افغانستان کے آرمی چیف محمد شریف یفتالی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی افواج کو پہنچنے والے نقصان کی تصدیق کی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حملے میں کتنے فوجی ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی فوج کا زمینی آپریشن، 6 فلسطینی جاں بحق

طالبان کے ترجمان ضلع جگہوری میں کیے گئے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان نے غزنی کے ضلع ملستان پر قبضہ کر لیا ہے لیکن ملستان کے حکام کی جانب سے اس بارے میں کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

غزنی افغانستان کے 34 صوبوں میں وہ واحد صوبہ تھا جہاں سیکیورٹی کے مسائل کے سبب گزشتہ ماہ پارلیمانی انتخابات نہیں ہو سکے تھے اور ووٹننگ کو ایک سال کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں