امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلات میں ہونے والی تاریخی آتشزدگی کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 42 تک پہنچ گئی۔

ہلاکتوں کی تعداد کے ساتھ جنگلات میں لگنے والی یہ آگ ریاست کی تاریخ میں سب سے خونریز قرار دی جارہی ہے جس نے 1933 میں لاس اینجلس میں لگنے والی آگ، جس میں 29 افراد ہلاک ہوئے تھے، کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق ہلاک افراد کی زیادہ تر لاشیں جلی ہوئی گاڑیوں اور جلے ہوئے مکانات کے پاس سے ملی ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا: ریاست کیلیفورنیا میں لگنے والی آگ بےقابو، ہلاکتیں 31 ہوگئیں

حکام کا کہنا تھا کہ لاشوں کی تلاش کا کام جاری ہے جس کے لیے کتوں سے بھی مدد لی جارہی ہے۔

بٹ کاؤنٹی کے شیرف کوئے ہونیا نے نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’یہ انتہائی المناک واقعہ ہے، اگر آپ وہاں ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ہم کس شدت کے واقعے کا سامنا کر رہے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جلد سے جلد نکال سکوں‘۔

انہوں نے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ 27 ہزار کی آبادی والے علاقے میں لگنے والی آگ کے واقعے کے بعد سے کتنے افراد لاپتہ ہوئے ہیں تاہم لاشوں کی شناخت کے لیے ایک موبائل ڈی این اے لیب جائے وقوع پر لائی جا چکی ہے۔

دریں اثناء جہاں سے آتشزدگی کا آغاز ہوا تھا اس زمین کے مالک بیٹسی این کولے کا کہنا تھا کہ انہوں نے آگ لگنے سے ایک ہفتے قبل پیسیفک گیس اینڈ الیکرٹ کمپنی کو ای میل کی تھی جس میں ان سے ان کی یوٹیلیٹی پاور لائنز کو دیکھنے کا کہا گیا تھا کیونکہ وہ مسلسل اسپارک کر رہیں تھی۔

کمپنی کی جانب سے اس دعوے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے اور حکام کا کہنا تھا کہ آگ کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیلیفورنیا میں خطرناک آگ سے فلم اسٹارز کے گھر بھی محفوظ نہ رہ سکے

ریاست کے گورنر جیری براؤن نے کہا کہ 'یہ واقعی ایک المیہ ہے جسے کیلی فورنیا کے عوام سمجھ رہے ہیں اور اس کے مطابق ردعمل دے رہے ہیں جبکہ ہمیں مل جل کر ان حادثات سے بچنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔'

کیلی فورنیا نے ٹرمپ انتظامیہ سے ہنگامی بنیاد پر امداد کی درخواست کی ہے، جنہوں نے واقعے کا الزام جنگلات کے انتظامات سنبھالنے میں خرابی کو قرار دیا۔

کیلی فورنیا کے گورنر کا کہنا تھا کہ وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو یقینی طور پر جنگلات کے انتظامات سنبھالنے کے لیے مزید اقدامات اٹھانے چاہیے، لیکن موسم میں تبدیلی اس میں بڑی رکاوٹ ہے۔

واضح رہے کہ آگ کے بلند شعلوں کے نتیجے میں کئی ہالی وڈ اسٹارز کے ساحلی علاقوں میں قائم مکانات بھی تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے، تاہم ان کی جانب سے عام عوام کے نقصان پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں