جمال خاشقجی قتل: ’اپنے باس کو بتا دو مشن مکمل ہوگیا‘

13 نومبر 2018
سعودی صحافی جمال خاشقجی — فائل فوٹو
سعودی صحافی جمال خاشقجی — فائل فوٹو

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق شیئر کی گئی آڈیو ریکارڈنگز سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ اعلیٰ سطح کے سعودی افسر کو کی گئی فون کال میں کہا گیا تھا کہ ’ اپنے باس کو بتادو ان کا مشن مکمل ہوگیا‘۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے فوری بعد قتل میں ملوث سعودی افسران میں سے ایک نے سعودی عرب میں اعلیٰ افسر کو فون پر کہا تھا کہ ’اپنے باس کو بتادو مشن مکمل ہوگیا'۔

ترک انٹیلی جنس کی جانب سے جمال خاشقجی سے متعلق حاصل کی گئی ریکارڈنگ سے واقف 3 افراد کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے بتایا کہ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ ’آپ کے باس‘ سے مراد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔

مزید پڑھیں : 'خاشقجی کے قتل سے متعلق آڈیو ریکارڈنگز سعودیہ،دیگر ممالک سے شیئر کردیں'

اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام مذکورہ ریکارڈنگ کو جمال خاشقجی قتل سے محمد بن سلمان کے تعلق کے حوالے سے اہم ترین ثبوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

ذرائع نے دی ٹائمز کو بتایا کہ استنبول بھیجے گئے 15 سعودی افراد میں شامل مھر عبدالعزیز مطرب نے فون کال کرکے عربی میں گفتگو کی تھی۔

مھر عبدالعزیز مطرب ایک سیکیورٹی اہلکار ہیں جو ولی عہد کے ساتھ اکثر سفر کرتے ہیں۔

ترک انٹیلی جنس افسران نے امریکی حکام کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے مذکورہ فون کال محمد بن سلمان کے قریبی معاون کو کی گئی تھی۔

مھر عبدالعزیز مطرب نے معاون کو بتایا کہ ’کام مکمل ہوگیا‘ تاہم اخبار نے اس کا صحیح ترجمہ کیا جو انگریزی میں مختلف ہوسکتا ہے۔

آڈیو ریکارڈنگز، ایک اہم ثبوت

ترک حکام کا کہنا تھا کہ آڈیو ریکارڈنگ محمد بن سلمان کو مجرم نہیں ٹھہراتی لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم ثبوت ہے۔

سابق سی آئی اے آفسر بروس ریڈل نے کہا تھا کہ ’اس طرح کی فون کال ایک اسموکنگ گن جیسی ہے جس کے لیے آپ جارہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’یہ ثبوت مجرم کی نشاندہی کررہا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں : خاشقجی قتل : برطانوی وزیر خارجہ کی سعودی فرماں روا سے ملاقات

دوسری جانب سعودی حکام کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ولی عہد صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے یکسر لاعلم تھے۔

دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ریکارڈنگ میں شامل جملے سے متعلق ایک سعودی بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ہماری انٹیلی جنس ایجنسی سروسز کو ریکارڈنگ سننے کی اجازت دی گئی تھی، ریکارڈنگ میں ایسا کوئی جملہ موجود نہیں تھا‘۔

قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، ترک صدر

ادھر این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ترک میڈیا کا کہنا تھا کہ ترکی نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ریکارڈنگز مغربی اتحادیوں کے ساتھ شیئر کی تھیں, جو ’ہولناک‘ ہیں اور سعودی انٹیلی جنس افسر کو یہ سن کر دھچکا لگا تھا۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’یہ ریکارڈنگز درحقیقت ہولناک ہیں اور سعودی انٹیلی جنس افسر کو یہ ریکارڈنگ سن کر دھچکا لگا۔

سعودی انٹیلی جنس افسر نے کہا کہ ’اس شخص نے لازمی ہیروئن (نشہ) لی ہوگی کیونکہ جو ہیروئن پیتا ہو وہی ایسا کرسکتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: خاشقجی قتل: سعودی قونصل جنرل کے گھر سے تیزاب کے شواہد ملنے کا دعویٰ

ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ اس قتل کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کا حکم اعلیٰ سطح کے سعودی حکام کی جانب سے دیا گیا تھا تاہم وہ محمد بن سلمان کے حوالے سے ایسا نہیں سوچ سکتے کیونکہ وہ ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے کو واضح کروں گا، اس میں جو ضروری ہوا میں کروں گا‘، ہم انتظار کررہے ہیں۔

رجب طیب اردوان نے مزید کہا جمال خاشقجی کے قاتل 18 مشتبہ افراد ہیں جنہیں سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا، یہ واضح ہونا چاہیے کہ انہیں قتل کا حکم کس نے دیا تھا‘۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں : جمال خاشقجی ’خطرناک شدت‘ پسند تھے، سعودی ولی عہد

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں