بھارتی سپریم کورٹ نے 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف درخواست کی سماعت 19 نومبر کو مقرر کردی۔

واضح رہے کہ گجرات فسادات بھارتی تاریخ کے بدترین فسادات میں سے ایک تھے اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات فسادات ٹرائل:گینگ ریپ کیس میں پولیس افسران،ڈاکٹرز مجرم قرار

گجرات فسادات پر واشنگٹن نے مودی کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی تاہم وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔

ہندوستان ٹائمز میں شائع رپورٹ کے مطابق گجرات فسادات سے متعلق اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) نے ایک سال بعد اپنی رپورٹ میں نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی تھی اور کہا تھا کہ ’نریندر مودی کا گجرات فسادات سے کوئی تعلق نہیں ملا‘۔

نریندر مودی کو ایس آئی ٹی کی جانب سے دی گئی کلین چٹ کو ذکیہ جعفری نے بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’ہائی کورٹ نے درخواست کے تمام امور کا ٹھیک طرح جائزہ نہیں لیا‘۔

مزید پڑھیں: گجرات فسادات: 24 میں سے 11 مجرمان کو عمر قید

اس سے قبل ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو 5 اکتوبر 2017 کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن عدالت نے درخواست مسترد کردی تھی۔

واضح رہے کہ ذکیہ جعفری کے شوہر احسان جعفری گجرات فسادات کے زد میں آکر جاں بحق ہو گئے تھے۔

احسان جعفری کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ تھے۔

اس سے قبل رواں سال 21 اپریل کو گجرات ہائی کورٹ نے مسلم کش فسادات کے الزام میں قید، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی 63 ساتھی مایا کوڈنانی کو بری کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات میں ہندو مسلم فساد، 200 سے زائد گرفتاریاں

انہیں 2012 میں 97 افراد کے قتل کے الزام میں 28 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

گجرات میں 2002 میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں کم از کم ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی تھی۔

اس وقت نریندر مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان پر مسلمان کے قتل عام اور فسادات نہ رکوانے کے الزامات بھی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں