کیا روس افغانستان میں امن لا سکے گا؟

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2018
ماسکو میں 9 نومبر 2018 کو افغانستان پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف، طالبان نمائندے اور دیگر شرکاء گروپ فوٹو کے لیے کھڑے ہیں۔ — اے ایف پی
ماسکو میں 9 نومبر 2018 کو افغانستان پر ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف، طالبان نمائندے اور دیگر شرکاء گروپ فوٹو کے لیے کھڑے ہیں۔ — اے ایف پی

ماسکو میں گوناگوں افغان گروہوں اور علاقائی ممالک کے سربراہان کی گزشتہ ہفتے ملاقات علاقائی زمینی سیاست کی بدلتی ہوئی ہوا کا اشارہ ہے۔

'ماسکو فارمیٹ' قرار دیے جانے والے اس روسی اقدام کو حد سے زیادہ طویل ہو چکی افغان جنگ کا ایک علاقائی حل ڈھونڈنے کے لیے اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایک سابقہ حملہ آور قوت کو اپنے پرانے دشمنوں کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھنا واقعتاً متاثر کن تھا۔

اس فارمیٹ پر کابل اور واشنگٹن کے سخت تحفظات کے باوجود 11 ممالک کی مذاکرات میں نمائندگی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ افغان طالبان کو بھی کسی بین الاقوامی فورم پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جنگجو افغان وفد کے ساتھ اسی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔

بھلے ہی کابل حکومت نے باضابطہ طور پر ان مذاکرات میں شرکت نہیں کی مگر امن کوششوں کی سربراہی کرنے والی اعلیٰ امن کونسل کے ارکان اور انفرادی افغان رہنماؤں کی موجودگی نہایت نمایاں تھی۔ امریکا نے بھی چند مبصرین بھیجے تھے۔ کانفرنس نے شاید جمود کو نہ توڑا ہو مگر کچھ برف ضرور پگھلی ہے۔ یہ واقعی افغان طالبان کے لیے ایک سفارتی فتح تھی۔

یہ بات درست ہے کہ 'ماسکو فارمیٹ' کو ایک متوازی امن کوشش کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس فارمیٹ کا بنیادی مقصد اس مسئلے پر وسیع تر علاقائی فہم پیدا کرنا ہے۔ یہ اقدام روسی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ بھی ہے کہ وہ اب افغانستان اور خطے میں صرف ردِ عمل کی قوت بنے رہنے کے بجائے عملی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان پر روس کی پالیسی میں دوسرے کھلاڑیوں کو بھی شامل کرنے کی وجہ درحقیقت خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی ہے۔

بھلے ہی ماسکو نے پہلی مرتبہ افغان طالبان کو باضابطہ طور پر مدعو کیا تھا مگر طرفین پہلے ہی رابطہ قائم کر چکے تھے۔ روس کی جانب سے افغان جنگجوؤں کو مالی اور مادی سہولیات فراہم کرنے کی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں۔ اس سے کابل اور واشنگٹن میں شدید تحفظات نے جنم لیا ہے۔ ویسے تو یہ میٹنگ اگست میں ہونی تھی مگر اسے کابل حکومت کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔

گزشتہ چند سالوں میں روس افغان امور میں پہلے سے زیادہ سرگرمی سے ملوث ہوگیا ہے۔ ماسکو نے علاقائی ممالک مثلاً چین، پاکستان، ایران اور ہندوستان سے بھی پے در پے مشاورت کی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پہلی 2 ملاقاتوں میں افغانستان کو باہر رکھا گیا جس کی وجہ سے اس پورے مرحلے کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے۔ آخری مرتبہ یہ ملاقات 2017 میں ہوئی تھی۔

اس اقدام کی بنیادی وجہ اس حوالے سے بڑھتی ہوئی تشویش تھی کہ کہیں افغان تنازع خطے بھر میں نہ پھیل جائے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام امریکا کی جانب سے افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکامی پر بڑھتی ہوئی بے چینی کے ماحول میں روس کی جانب سے اپنی سفارتی طاقت کے اظہار کا ذریعہ بھی تھا۔

پریشانی کی ایک اور وجہ جنگ زدہ ملک کے اندر عسکریت پسند دولتِ اسلامیہ گروہ کے پھیلنے کا خطرہ بھی ہے۔ دولتِ اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک علاقائی اتحاد بنانے کی روسی کوششیں بدلتے ہوئے زمینی سیاسی منظرنامے میں طاقتوں کی ایک نئی ہم آہنگی کی علامت بھی ہیں۔

مگر اس تنازعے کے مرکزی فریق کی عدم موجودگی میں وہ کانفرنسیں کچھ زیادہ پیش رفت نہیں کر پائیں۔ مگر تازہ ترین 'ماسکو فارمیٹ' افغان طالبان اور کچھ اہم افغان رہنماؤں کی شرکت کی وجہ سے زیادہ اثر انگیز محسوس ہو رہا ہے۔

پاکستان بھی ماسکو جیسے تحفظات رکھتا ہے اور نئے علاقائی فارمیٹ میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے قابل ہونے میں کچھ امید دیکھتا ہے۔ مگر مسئلے کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ماسکو میٹنگ میں شرکت سے افغان طالبان کی پوزیشن صرف مضبوط ہی ہوئی ہے اور انہیں پہلے سے کہیں زیادہ بین الاقوامی شناخت ملی ہے۔

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد۔ — فوٹو اے پی
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد۔ — فوٹو اے پی

چونکہ طالبان نے حالیہ سالوں میں میدانِ جنگ میں کافی بالادستی حاصل کی ہے اس لیے ان کی پوزیشن میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی۔ اپنے ایک بیان میں جنگجو گروہ نے کہا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی میٹنگ 'کسی بھی فریق' کے ساتھ مذاکرات نہیں تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی اقدام اس وقت آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ یہ امریکا کے اس طویل عرصے سے قائم مؤقف میں تبدیلی ہے کہ کسی بھی امن مذاکرات کی سربراہی کابل حکومت کو کرنی چاہیے۔ سینیئر امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے 2 راؤنڈ ہو چکے ہیں۔ مگر ایسی کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی جو باضابطہ امن مذاکرات کی راہ ہموار کر سکے۔

ویسے تو افغان صدر اشرف غنی نے اصولی طور پر امریکا اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی حمایت کی تھی مگر اطلاعات ہیں کہ انہیں تازہ ترین میٹنگ کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے افغان حکومت کے اہلکاروں میں غصہ پھیل گیا تھا۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کو 3 ماہ قبل افغانستان میں امریکا کے خصوصی نمائندے کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور ان کا مینڈیٹ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا۔ افغانستان میں سابق سفیر کے طور پر انہیں لگتا ہے کہ وہ اس کام کے لیے اہل ہیں، اور اس کی بڑی وجہ ان کے نزدیک ان کی قومیت ہے۔

واشنگٹن کی جانب سے گزشتہ ماہ دوحہ میں ہونے والی گفت و شنید کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ مگر طالبان کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ میٹنگ کا مرکزی نکتہ قبضے کا خاتمہ اور افغان تنازعے کا ایک پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش تھا۔

جنگجو گروہ نے کابل حکومت سے بات نہ کرنے کے اپنے سخت گیر مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے طالبان رہنماؤں، بشمول گوانتانامو سے 2014 میں رہا ہونے والے 5 افراد پر عائد اقوامِ متحدہ کی سفری پابندیوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ میدانِ جنگ میں کامیابیوں کی وجہ سے طالبان کی پوزیشن مزید سخت ہوچکی ہے۔

اس دوران یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ قندھار کے ہیبت ناک پولیس چیف جنرل عبدالرازق اور دیگر دو اعلیٰ افسران کے قتل سے امریکا اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے اگلے راؤنڈ پر منڈلاتے سائے گہرے ہو سکتے ہیں۔ سیکیورٹی کانفرنس، جس میں امریکا کے اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی موجود تھے، پر حملہ خلیل زاد کی دوحہ میں سینیئر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے چند ہی دن بعد ہوا۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

مگر اس بات کا کوئی اشارہ موجود نہیں کہ جنرل رازق کے قتل سے امریکی انتظامیہ کی طالبان سے مذاکرات کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

جہاں ماسکو میٹنگ نے طالبان نمائندوں، افغان رہنماؤں اور علاقائی ممالک کو ساتھ بٹھا کر کچھ مثبت نتائج فراہم کیے ہیں، وہیں افغان تنازعے کا کوئی بھی سیاسی حل امریکی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ براہِ راست گفتگو کا فیصلہ بلاشبہ آگے کی جانب قدم ہے مگر ابھی بھی ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے جو کہ باضابطہ مذاکرات تک لے جا سکے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں