پاکستانی وزارت خارجہ نے گزشتہ ماہ لاپتہ ہونے والے خیبرپختونخوا (کے پی) کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر خان داوڑ کی لاش افغانستان سے برآمد ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی لاش کو قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد براستہ طورخم پاکستان پہنچایا جائے گا۔

وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق افغان وزارت خارجہ نے ایس پی طاہر خان داوڑ کی لاش سروس کارڈ کے ساتھ ملنے کی تصدیق کرکے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کو آگاہ کردیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق طاہر خان کی لاش افغان صوبے ننگرہار کے ضلع دربابا میں مقامی رہائشیوں کو ایک روز قبل ملی تھی۔

وزارت خارجہ کے مطابق افغان حکام نے تصدیق کردیا ہے کہ ایس پی خیبر پختونخوا کی لاش کے ساتھ ان کا سروس کارڈ بھی ملا ہے۔

ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مقامی افراد نے ایس پی کی لاش کو پولیس کے حوالے کر دیا جس کے بعد اسے ضلع مہمند منتقل کیا گیا اور جہاں سے لاش کو جلال آباد لے جایا جارہا ہے تاہم دفتر خارجہ کے مطابق آخری اطلاعات تک جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کو لاش موصول نہیں ہوئی تھی۔

وزارت خارجہ کے مطابق ایس پی طاہر خان کی لاش کو ضروری کارروائی کے بعد براستہ طورخم سرحد پاکستان منتقل کردیا جائے گا۔

وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وزارت اس حوالے سے افغان سفارت خانے سے رابطے میں ہے جبکہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ بھی گزشتہ شب سے افغان وزارت خارجہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر خان داوڑ کی لاش انٹر نینشل ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ موومنٹ کی جانب سے جلد پاکستانی حکام کے حوالے کردی جائے گی۔

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ایس پی پشاور جاوید اقبال مزید تفصیلات سے سب کو آگاہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ طاہر خان داوڑ کی لاش طورخم بارڈ پر خیبر پختونخوا پولیس کے حوالے کی جائے گی۔

واضح رہے کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر خان داوڑ، جو پشاور پولیس کے دیہی سرکل کے سربراہ تھے، کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے جی-10 سے اغوا کیا گیا تھا، جن کی مبینہ لاش افغانستان کے صوبے ننگرہار سے ملی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی مغوی پولیس افسر کے افغانستان میں قتل کی اطلاعات

اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ لاش وصول کرنے کے لیے پاک فوج، افغان فوجی انتظامیہ سے رابطے میں ہے لیکن لاش منگل کی رات وصول نہیں ہوسکی تھی، ان کا کہنا تھا کہ’ شاید کل تک ہمیں لاش موصول ہو جائے‘۔

پولیس کی جانب سے تصدیق سے قبل ایس پی کی مبینہ تشدد زدہ لاش کے ساتھ پشتو میں لکھے گئے خط کی تصاویر بھی وائرل ہوگئی تھیں تاہم سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمیں اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ’ذرائع‘ سے موصول ہوئی تاہم خیبر پختونخوا پولیس نے اس واقعے کی تصدیق کرنے سے انکار کیا۔

اس ضمن میں خیبر پختونخوا پولیس کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ذرائع نے افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں لاش ملنے کی بابت آگاہ کردیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر تصاویر بھی وائرل ہوگئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے خیبر پختونخوا پولیس کے ساتھ اس حوالے سے معلومات کا تبادلہ نہیں کیا، نہ ہی ایس پی کے اغوا اور ان کو سرحد پار لے جانے کے حوالے سے کوئی اطلاع تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد سے خیبرپختونخوا میں تعینات ایس پی ’لاپتا‘

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پولیس افسر کو کس مقام پر قتل کیا گیا اور کون سا گروہ اس کا ذمہ دار ہے، اس بارے میں تحقیقات کی جائیں گی جبکہ لاش کے ساتھ ملنے والے خط میں کسی بھی تنظیم کا نام نہیں تھا، اسے بھی تحقیقات کا حصہ بنایا جائے گا۔

دوسری جانب ایس پی کے افسر کے بھائی احمد الدین نے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں سرکاری ذرائع سے ابھی تک تصدیق موصول نہیں ہوئی تاہم سوشل میڈیا میں تصاویر وائرل ہونے کے بعد تعزیت کرنے والوں کی کثیر تعداد ان کے گھر پہنچ گئی۔

یاد رہے کہ تصاویر میں نعش کے ساتھ ملنے والے خط میں پشتو زبان میں ولایت خراسان کا نام لکھا ہے اور اس میں وہی رسم الخط استعمال کیا گیا ہے جو پاک افغان علاقے میں داعش استعمال کرتی ہے۔

خط میں ایس پی طاہر خان داوڑ کا نام لے کر لکھا گیا ہے کہ ’پولیس اہلکار جس نے متعدد عسکریت پسندوں کو گرفتار اور قتل کیا، اپنے انجام کو پہنچ گیا‘۔

اس کے ساتھ خط میں دوسرے افراد کو بھی محتاط رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے تحریر ہے کہ بصورت دیگر ان کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا کے 3 لاپتہ پولیس اہلکاروں کی لاشیں برآمد

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طاہر خان داوڑ کو رواں برس کے آغاز میں دیہی علاقوں کا ایس پی بنایا گیا تھا اس سے قبل وہ یونیورسٹی ٹاؤن اور فقیر آباد میں بحیثیت ڈی ایس پی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔

خیال رہے کہ وہ 26 اکتوبر کو ہی پشاور سے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہیں اسی روز اغوا کرلیا گیا تھا، ان کے اہلِ خانہ نے اسلام آباد پولیس کو بتایا تھا کہ ان کا فون شام پونے 7 بجے سے بند جارہا تھا۔

یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ایس پی اس سے قبل بنوں میں تعیناتی کے دوران 2 خود کش حملوں کا سامنا کرچکے تھے جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔

ایس پی اغوا کے بعد افغانستان کیسے پہنچا، افغان سفیر

علاوہ ازیں پاکستان میں افغان سفیر عمر ذاخیل وال نے پشاور میں الوداعی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ایس پی طاہر خان داوڑ کے بارے میں اتنی ہی معلومات میرے پاس ہیں جتنی آپ کے پاس ہیں، دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیسے یہاں اسلام آباد میں پولیس افسر اغوا ہوا اور افغانستان پہنچا اور مردہ حالت میں پایا گیا۔

دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے افغان سفیر کا کہنا تھا کہ صلح کے علاوہ اور کوئی راستہ پاکستان اور افغانستان کے پاس نہیں، ایس پی طاہر داوڑ کے معاملے میں دونوں ممالک کی قیادت کو بیٹھنا ہوگا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان حکومت نے ایس پی طاہر خان داوڑ سے متعلق کوئی رابطہ نہیں کیا تاہم اس معاملے پر انتہائی افسوس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے ساتھ ہمارے تعلقات تھے، افغانستان نے سب سے زیادہ شہدا کی قربانیاں دیں۔

افغان سفیر کا کہنا تھا کہ ابھی بعض معاملات پر پاکستان اور افغانستان کے دوران عدم اعتماد ہے، اسلام آباد اور افغانستان میں ہوائی راستہ 40 منٹ کا ہے، چاہتے ہیں دونوں ممالک کے درمیان زیادہ ملاقاتیں ہوں، افغانستان میں امن سب کے فائدے میں ہے، افغانستان میں بدامنی کے اثرات سے پاکستان واقف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کانفرنس کو شک کی نگاہ سے نہیں بلکہ صلح کی جانب پیش رفت سمجھنا چاہیے، ماسکو کانفرنس خوش آئند ہے، امید ہے کہ کانفرنس نتیجہ خیز ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں