رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

ایک وقت تھا جب امریکا بہت دُور تھا۔ وہاں رہنے والے لوگ جب واپس آیا کرتے تھے تو یہ ایک بڑا موقع ہوا کرتا تھا۔ کئی رشتے دار گھر آیا کرتے تاکہ ان سے باتیں کریں اور اس دُور دراز ملک میں زندگی کے بارے میں جانیں۔

جب لوگ وہاں منتقل ہو رہے ہوتے تھے تو ان کی روانگی کا خوف کئی دنوں اور مہینوں سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تھا۔ جب روانگی کی شام آیا کرتی تو شیر خوار بچوں سے لے کر دانا بوڑھوں تک سبھی پر مشتمل خاندان کے خاندان انہیں ایئرپورٹ چھوڑنے جایا کرتے تھے، اور کیونکہ اس دور میں سیکیورٹی مسائل آج کے دور کی طرح پریشان کن نہیں تھے اس لیے انہیں گیٹ، تقریباً جہاز تک چھوڑنے جایا جاتا تھا۔

اس سے بھی کم فکر ویزوں اور پاسپورٹ کے مسائل ہوا کرتے تھے: کس کے پاس کون سا پاسپورٹ ہے اور کون کہاں جانے کا اہل ہے، کون اپنے والدین کو وہاں بلوا سکتا ہے اور کون بار بار دورہ کرسکتا ہے۔

حالیہ سالوں میں پاکستان کا امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے فاصلہ سُکڑ گیا ہے اور اس کی وجہ فضائی سفر میں ہونے والی ترقیاں اور انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والے تعلقات ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے دوسری جانب موجود شہروں کے درمیان کئی فلائٹس چلتی ہیں۔

پہلے جس سفر کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا تھا اب وہ صرف ایک دن سے کچھ زیادہ کا کام ہے۔ اس کے علاوہ اسکائپ، واٹس ایپ اور دیگر سہولیات کو مدِنظر رکھیں تو آپ پائیں گے کہ اب غیر موجودگی کے معانی وہ نہیں رہے جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ امریکا میں رہنے والے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور اکثر اپنی غیر موجودگی کے باوجود یہاں کے حالات سے دور نہیں رہتے۔ کزن کی شادی سے بھانجی کی پیدائش تک ہر چیز کو ویڈیو کالز کے ذریعے دیکھا، سنا، ہضم اور پرکھا جاسکتا ہے۔

مگر ایک چیز آسان نہیں ہوئی ہے۔ جہاں 11 ستمبر نے ہر پاکستانی کے کندھوں پر دہشتگردوں سے وابستگی کے شکوک و بدنامی کا بوجھ ڈال دیا، وہیں ٹرمپ کا دور وہ ہے جو یہاں سے وہاں یا وہاں سے یہاں لوگوں کی آمد و رفت پر تقریباً پابندی لائے گا۔ یہ سچ ہے کہ 11 ستمبر نے امریکا میں پاکستانی برادری کو کئی مشکلات سہنے، شک اور خوف کا بوجھ اٹھانے اور اپنی برادریوں کے اندر بنیاد پرست یا انتہا پسند خیالات رکھنے والوں کی سخت تلاش کا بوجھ اٹھانا پڑا مگر اس سب کا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نافذ کردہ منظم کارروائیوں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسلام اور مسلمانوں سے خوف کھانے والے ماضی کے وہ افراد جو ہر نوجوان مسلمان مرد کے پیچھے ایک ایف بی آئی ایجنٹ لگا دینا چاہتے تھے، ان کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ جو جال پھیلانا چاہتی ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ اہداف صرف ویزا رکھنے والے افراد نہیں جن کی آئینی حقوق سے لاعلمی انہیں تمام طرح کی حکومتی نظرداری کا نشانہ بنا دیتی ہے، بلکہ گرین کارڈ ہولڈر (قانونی مستقل رہائشی)، یہاں تک کہ شہری بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

شہریوں کے کیس میں تو ٹرمپ انتطامیہ کی جانب سے حال ہی میں ایک نئی قائم شدہ 'ڈی نیچرلائزیشن' ٹاسک فورس امریکی معاشرے کا پہلے سے حصہ بن چکے (نیچرلائز ہوچکے) ان ہزاروں افراد کی درخواستوں کی واپس جانچ پڑتال کر رہی ہے جن پر اس ٹاسک فورس کو فراڈ کا شبہ ہے۔ ڈی نیچرلائزیشن کی کارروائی سول بھی ہوسکتی ہیں اور کرمنل یا فوجداری بھی۔ سول نوعیت کے کیس تو کسی بھی وقت شروع کیے جاسکتے ہیں بھلے ہی کسی فرد کو شہری بنے ہوئے کئی دہائیاں ہوچکی ہوں۔ پاکستانی جو پہلے ہی مسلمان ہونے اور دہشتگردی سے اپنے تعلقات کی وجہ سے بدنام ہیں، شہریوں پر ہونے والے اس حملے کی قیمت ممکنہ طور پر سب سے زیادہ چکائیں گے۔

پھر نیچرلائزیشن کا بھی مسئلہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے نئے تجویز کردہ ضوابط (بھلے ہی ابھی منظور نہیں ہوئے) سے ان طریقوں میں کافی تبدیلی آجائے گی جن کے ذریعے پاکستانی اپنے رشتے داروں اور بچوں کو اسپانسر کرکے امریکا بلواتے ہیں۔ اگر یہ مجوزہ ضوابط منظور کر لیے گئے تو ویزا کیٹیگریز میں سے فیملی ری یونیفیکیشن (خاندان کے ملاپ) ویزا ختم ہوجائے گا اور امریکی شہری پھر صرف اپنے شریکِ حیات کو ہی اسپانسر کرکے بلوا سکیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی شہری اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو اسپانسر نہیں کرسکیں گے اور کئی لوگ سالوں تک اپنی درخواستوں کی منظوری کا انتظار کرنے کے بعد پائیں گے کہ ان کے مستقبل کے منصوبے بکھر چکے ہیں۔

چونکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اس وقت گرم جوش نہیں ہیں اس لیے پاکستان پابندی کے شکار ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہ مدِنظر رکھتے ہوئے کہ امریکی سپریم کورٹ نے کچھ اقوام پر سفری پابندیاں برقرار رکھنے کی اجازت دی ہے، اس لیے امریکا کی راہ میں کسی بھی ایسے ملک پر یا اس کے شہریوں پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دینے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے اور ہم جانتے ہی ہیں کہ دھمکیاں دینا صدر ٹرمپ کا پسندیدہ کام ہے۔

وہ پاکستانی جو امریکا اور پاکستان کے درمیان باقاعدگی سے سفر کرتے ہیں یا پھر طویل عرصے سے گرین کارڈ کے حامل ہیں، ان کے لیے یہ احتیاط کا وقت ہے۔ اگر وہ نیچرلائزیشن کے اہل ہیں اور شہری بننے کی درخواست دے رہے ہیں تو انہیں اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی ایسے بچے بیرونِ ملک ہیں جو اپنے والدین کو اسپانسر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بغیر کسی تاخیر کے پٹیشن فائل کرنی چاہیے کیونکہ ان پٹیشنز کا مستقبل بھی مشکوک ہے، اس لیے ضوابط میں تبدیلی سے پہلے پٹیشن فائل ہونا بہتر ہے بجائے اس کے کہ کوئی پٹیشن نہ ہو۔

اگر امریکا کی گزشتہ دہائی بیرونی جنگوں کی دہائی تھی تو یہ دہائی امریکا کے ایک ایسے قلعے میں تبدیل ہونے کی دہائی ہے جس کا صدر ایک خود ساختہ سفید فام قوم پرست ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ٹرمپ کا دور ہمیشہ باقی نہیں رہے گا مگر اس بات کا بہت امکان ہے کہ یہ معصوم تارکینِ وطن یا پھر مستقبل میں تارکینِ وطن بننے والوں کی زندگیوں میں مزید افراتفری اور بھونچال پیدا کرے گا۔

پاکستان اور پاکستانی جن کے لیے امریکی صدر کافی نفرت رکھتے ہیں، وہ ممکنہ طور پر ان نتائج کا سامنا کریں گے کیونکہ ویزا اور گرین کارڈ کے خواہشمند افراد آگے بڑھ کر کارروائی نہیں کرسکتے؛ مگر وہ دفاعی حکمتِ عملی تیار کرکے یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ شمالی امریکا میں رہنے والے تارکینِ وطن یا ان جیسا بننے کے خواہشمندوں کی زندگیوں پر کیا چیز اثرات مرتب کرے گی۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں