وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عام انتخابات 2018 سے قبل سندھ کی نگراں حکومت کی جانب سے پولیس افسران کے تبادلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تبادلوں سے پولیس افسران پریشان ہیں۔

سندھ اسمبلی میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’نگراں حکومت نے پولیس افسران کے نام لکھ کر ایک ڈبے میں ڈالے اسے ہلایا اور پھر ایک ایک کر کے نام نکالے اور ان کا فیصلہ کیا کہ انہیں کہا تعینات کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں جاری پانی، ٹرانسپورٹ کے منصوبے پہلی ترجیح ہیں، مراد علی شاہ

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس افسران کو ’پاکستان پیپلز پارٹی کو توڑنے‘ کا ٹاسک دیا گیا تھا اور کیونکہ وہ پیپلز پارٹی رہنماؤں کا اتحاد توڑنے میں اتنا مصروف تھے کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بدتر ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بات کا گواہ ہوں، پولیس والوں کو امن و امان کی صورتحال بھول کر پیپلز پارٹی کو توڑنے کا کام دیا گیا تھا‘۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اقتدار میں واپس آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت اسٹریٹ کرائمز کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ 2013 میں دہشت گردی کے 61 واقعات رونما ہوئے تھے، 2017 میں یہ تعداد کم ہوکر 2 رہ گئی تھی جبکہ رواں سال اب تک سندھ میں دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کیلئے فضل الرحمٰن کے نام پر اتفاق

ان کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے تاہم ہم مطمئن نہیں، ہمیں ابھی مزید کام کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی نے حالیہ چند سالوں میں مختلف دہشت گردی کے واقعات دیکھے ہیں جن میں صفورہ گوٹھ واقعہ، سہون دھماکا، شکارپور دھماکا، قوال امجد صابری کا قتل، جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما خالد محمود سومرو اور صحافی ولی خان بابر کا قتل شامل ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں جس کی ہم نے تحقیقات کرکے اسے حل نہ کیا ہو۔

کسی کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ہم نے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کا کیس حل کرلیا؟‘

تبصرے (0) بند ہیں