’ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد بنانا کشمیریوں کے ساتھ فریب ہوگا‘

اپ ڈیٹ 15 نومبر 2018
صدر آزاد کشمیر مسعود خان — فائل فوٹو
صدر آزاد کشمیر مسعود خان — فائل فوٹو

مظفر آباد: آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قائم لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی تبدیلی کشمیری عوام کے لیے فریب ہوگا۔

صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان کا کہنا تھا کہ ایل او سی کو بین الاقوامی سرحد بنادینا طویل عرصے سے جاری کشمیر تنازع کا موزوں حل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جموں اور کشمیر ایک ہی حصہ ہے اگر اسے تقسیم کرنے کا کوئی اقدام اٹھایا گیا تو وہ کشمیری عوام کے ساتھ دھوکہ دہی کے زمرے میں آئے گا۔

سردار مسعود خان نے واضح کیا کہ ایسا عمل گزشتہ 7 دہائیوں سے حق خودارادیت کی جدوجہدِ میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہیدوں کے خون کے ساتھ فریب ہوگا۔

مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمانی گروپ نے کشمیر میں بھارتی جارحیت کی تصدیق کردی

مقبوضہ کشمیر میں آئے دن بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کے قتلِ عام سے متعلق بات کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے صدر نے کہا کہ ایل او سی کی دوسری جانب اکثریت پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہزاروں لوگ جعلی مقابلے میں شہید ہونے والے نہتے کشمیروں کے جنازوں میں شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ان کے لب پر یہی نعرے ہوتے ہیں کہ ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘۔

سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے لیے بڑھتی ہوئی یکجہتی پاکستان کے عوام کے لیے اور اپنی سیاسی و سفارتی مہم کو مزید تیز کرنے کا واضح پیغام ہے۔

یہ بھی پڑھی: مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کاریاستی جبر جاری، مزید 8 کشمیری نوجوان جاں بحق

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایل او سی کو مستقل سرحد بنایا گیا تو یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ کشمیر کو قالین کے نیچے دبانے کے مترادف ہوگا۔

سردار مسعود احمد خان نے کہا کہ کشمیروں کا حقِ خودارادیت ان کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے پُر عزم ہیں جو 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ان کی غیرمتزلزل قربیانیوں سے ثابت ہو رہا ہے۔

جب ان سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے کشمیر تنازع کے حل کے لیے 4 نکاتی ایجنڈے پر سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ممکنہ طور پر خطے میں جیوپولیٹیکل اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے تھا جو پاکستان، بھارت اور کمشیری عوام کے درمیان اعتماد کو بحال کرنے کی ایک کوشش تھی‘۔

مزید پڑھیں: کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت پر سری نگر میں بھارت مخالف مظاہرے

انہوں نے کہا کہ خفیہ رابطوں کے ذریعے سفارتخانوں میں اگر کچھ تیار کیا گیا ہے جو قابلِ قبول بھی ہو تو اسے عوامی تائید کے ٹیسٹ میں پاس ہونا ضروری ہوگا۔

ایل او سی کے دونوں جانب کشمیریوں کے لیے آزادانہ نقل و حرکت کا خیال عارضی طور پر اس درد کی دوا ہوسکتا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا جامع حل نہیں ہے۔

اسی طرح انہوں نے سیلف گورننس کے خیال پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر اس طرح کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل لانا جس میں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام شامل ہوں، بہت زیادہ پیچیدہ ہوسکتا ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ تینوں فریقین کے لیے اس کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔


یہ خبر 15 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں