بھارتی میڈیا نے کشمیر سے متعلق بیان کی غلط تشریح کی، شاہد آفریدی

15 نومبر 2018
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی — فائل فوٹو
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی — فائل فوٹو

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا نے کشمیر سے متعلق میرے بیان کی غلط تشریح کی۔

گزشتہ روز برطانوی پارلیمنٹ میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے کہا تھا کہ ’ دنیا نے کشمیر کو ایک مسئلہ بنادیا ہے، کمشیر مسئلہ نہیں ہے‘۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں شاہد آفریدی نے کہا کہ ’میں کہتا ہوں کہ کشمیر پاکستان کو نہیں چاہیے اور نہ ہی اسے بھارت کو دیں، بلکہ کشمیر کو علیحدہ ملک بنا دیں، کم از کم انسانیت تو زندہ رہے، جو لوگ مررہے ہیں، کم از کم ایسا (ناحق خون خرابا) تو نہیں ہوگا‘۔

مزید پڑھیں : شاہد آفریدی نے 'بوم بوم' کا لقب دینے والے کرکٹر کا نام بتا دیا

انہوں نے کہا کہ ’ پاکستان سے 4 صوبے نہیں سنبھل رہے، اسے بھارت کو بھی نہ دیں پاکستان کو کشمیر نہیں چاہیے ، انسانیت اہم چیز ہے، لوگ مررہے ہیں یہ چیز مجھے تکلیف دیتی ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو لیکن یہ بہت تکلیف دہ ہے‘۔

شاہد آفریدی کے مذکورہ بیان نے پاکستان اور بھارت میں ایک نیا تنازع کھڑا کردیا تھا جسے دونوں ممالک کے میڈیا کی جانب سے رپورٹ بھی کیا گیا تھا۔

تاہم سابق کپتان نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ میں کشمیر سے متعلق بیان کی وضاحت میں کہا کہ ’ بھارتی میڈیا نے میرے بیان کی غلط تشریح کی اور میرا ویڈیو کلپ نامکمل تھا‘۔

شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ بھارتی میڈیا نے میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، میں اپنے وطن سے بہت محبت کرتا ہوں اور کشمیریوں کی جدوجہد کو اہمیت دیتا ہوں، انسانیت کو غالب رہنا چاہیے اور انہیں (کشمیریوں ) کو ان کے حقوق ملنے چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں : شاہد آفریدی کی ٹوئٹ پر گوتم گمبھیر آپے سے باہر

سابق کپتان نے اپنے علیحدہ ٹوئٹ میں مزید کہا کہ ’ میرا کلپ نامکمل ہے اور سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے کیونکہ اس میں وہ سب موجود نہیں جو میں نے اس سے پہلے کہا تھا‘۔

شاہد آفریدی نے کہا کہ ’ کشمیر ایک غیر حل شدہ تنازع ہے اور وہاں بھارت کا ظالمانہ قبضہ ہے ،مسئلہ کمشیر کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ ہر پاکستانی کی طرح میں بھی کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہوں، کشمیر پاکستان کا ہے‘۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 15 نومبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں