ریپ کیس: انڈر ویئر دلیل کے طور پر پیش کرنے پر تنازع

16 نومبر 2018
ڈبلن میں ہونے والے مظاہرے میں کم عمر لڑکی انڈر ویئر کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے—فوٹو: یاہو نیوز
ڈبلن میں ہونے والے مظاہرے میں کم عمر لڑکی انڈر ویئر کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے—فوٹو: یاہو نیوز

آئرلینڈ کا شمار اگرچہ دنیا کے مہذب ترین ممالک میں کیا جاتا ہے، تاہم حالیہ دنوں میں وہاں خواتین ایک منفرد احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔

یورپی ملک آئرلینڈ کے کئی شہروں میں خواتین اپنے زیر استعمال انڈر ویئرز (زیر جامہ) کے ساتھ عدالتی فیصلے اور ایک ریپ ٹرائل کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، جس نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔

خواتین نے منفرد احتجاج اس وقت شروع کیا جب 12 رکنی عدالتی بینچ نے لڑکی کا ریپ کرنے والے ملزم کو بری کیا۔

عدالت نے ریپ کے ملزم کو وکیل دفاع کی جانب سے دیے گئے دلائل کے بعد رہا کیا۔

وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ لڑکی کی انڈرویئر دراصل اس کی جانب سے سیکس کی رضامندی کا اظہار تھا۔

عدالت نے وکیل دفاع کے دلائل کے بعد ریپ کے ملزم کو بری کردیا۔

رتھ کوپنگر پارلیمنٹ میں انڈر ویئر دکھاتے ہوئے—فوٹو: بی بی سی نیوز
رتھ کوپنگر پارلیمنٹ میں انڈر ویئر دکھاتے ہوئے—فوٹو: بی بی سی نیوز

8 مرد اور 4 خواتین ججز پر مشتمل بینچ نے دلائل سننے کے بعد رواں ماہ 5 نومبر کو 27 سالہ شخص کو 17 سالہ لڑکی کا ریپ کرنے سے بری کیا تھا۔

آئرلینڈ کے عوام کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ وکیل دفاع نے لڑکی کی انڈر ویئر کو اس کی جانب سے سیکس کی رضامندی کے طور پر پیش کیا، جس کے بعد خواتین نے احتجاج شروع کیا۔

برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف نے رپورٹ کیا کہ آئرلینڈ کی خواتین دارالحکومت ڈبلن سمیت دیگر بڑے شہروں میں عدالتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں اور انہوں نے اپنی انڈر ویئرز کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کرایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین نے اس وقت یہ منفرد احتجاج شروع کیا جب کہ سماجی کارکن اور رکن پارلیمنٹ 51 سالہ رتھ کوپنگر نے ٹوئٹر پر اپنی نیلے رنگ کی انڈر ویئر شیئر کرتے ہوئے لوگوں کو احتجاج کی دعوت دی۔

انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی عدالتی فیصلے اور وکیل دفاع کی جانب سے انڈر ویئر کو دلیل کے طور پر پیش کرنے پر احتجاج کیا اور اراکین کے سامنے انڈر ویئر دکھائی۔

رتھ کوپنگر کی جانب سے آئرلینڈ کے پارلیمنٹ میں احتجاج اور ٹوئیٹ پر خواتین کو احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل کے بعد دیگر سماجی کارکن خواتین نے بھی احتجاج کے طور پر اپنی انڈر ویئرز کی تصاویر ٹوئیٹ کیں۔

سوشل میڈیا پر شروع ہونے والے احتجاج نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے بڑے شہروں کا رخ کرلیا، جہاں خواتین نہ صرف نئی انڈر ویئرز خرید کر لائیں بلکہ اپنے زیر استعمال انڈر ویئرز کے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہوئیں۔

خواتین نے شہر کے اہم مقامات پر نہ صرف انڈر ویئرز اٹھا کر احتجاج کیا، بلکہ انہوں نے انہیں تار لگا کر احتجاج کے طور پر لٹکا دیا، جس کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر کے لوگوں کے لیے حیرانی کا باعث بنیں۔

خواتین نے انڈر ویئرز کی تصاویر ٹوئیٹ کرتے ہوئے ’یہ میری مرضی نہیں‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا، ساتھ ہی انہوں نے اسی نعرے کے بینرز کے ساتھ متعدد مقامات پر احتجاج میں بھی شرکت کی۔

احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ ایک مہذب ملک کی عدالت میں خواتین کے انڈر ویئر پر دلائل دینا اوراسے پہننے کو سیکس کے لیے رضامندی سمجھنا افسوس ناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے دلائل اور ایسی سوچ تو پسماندہ ممالک میں بھی نہیں پائی جاتی۔

آئرلینڈ میں یہ پہلا موقع ہے کہ خواتین نے اس طرح کا منفرد احتجاج کیا ہے۔

اس ملک کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں خواتین کو زیادہ خود مختاری، حقوق اور آزادی حاصل ہے۔

گزشتہ ماہ ریلیز ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آئرلینڈ خواتین کی خود مختاری، آزادی اور حقوق کے حوالے سے دنیا کا 15 واں بہترین ملک ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں