گل جی کی وہ صلاحیت جس نے ابتدا میں ہی انہیں بڑا مصور بنادیا

گل جی کی وہ صلاحیت جس نے ابتدا میں ہی انہیں بڑا مصور بنادیا

حسنین جمال

جب گل جی کے بارے میں لکھنے بیٹھا تو اچانک ایک عجیب سا خیال آیا، میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ زندگی میں گل جی سے میرا پہلا تعارف کیا تھا؟ اور جو کچھ یاد آیا وہ حیرت انگیز تھا۔

ایم ایم شریف (معروف خطاط)، گل جی، زریں پنا (کلاسیکل رقاصہ)، مہاراج کتھک، صادقین، منصور ملنگی، فصیح الرحمن، عدنان سمیع خان، افشاں، آغا طالش، صبیحہ، سنتوش، محمد علی، زیبا اور کئی دوسرے ایسے آرٹسٹ تھے جن کا ذکر پہلی مرتبہ میں نے اپنی ماں سے سنا تھا۔ اب ماں نہ این سی اے کی گریجویٹ ہے، نہ پشاور میں کوئی ایسا خاص سوشل سرکل تھا جو امّی کو یہ سب کچھ سکھاتا کہ آرٹ کیا ہے اور کیا نہیں ہے، بس ایک دلچسپی تھی جو پیدائشی تھی اور وہ میری ماں کو بہت سی چیزوں میں تھی۔ جیسے فلم، موسیقی، گانے ہر چیز انہیں پسند تھی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں انہیں کبھی بہت زیادہ وقت ان چیزوں پر خرچ کرتے نہیں دیکھا۔ پھر کتاب نے ان سب چیزوں کی جگہ لے لی۔ خدا زندگی صحت دے اب بس ہماری شکلیں موبائل پر دیکھتی ہیں اور کتاب رسالے پڑھ لیتی ہیں۔

تو گل جی کا ذکر پہلی بار امّی سے ہی سنا تھا۔ بعض اوقات دماغ کے تماشے عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی تو 4 دن پہلے پڑھی کتاب کا نام تک یاد نہیں آ رہا ہوتا اور کبھی برسوں پرانا منظر بس آنکھیں بند کرنے پر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ امّی نے کہا تھا، ’یہ دیکھو ذرا، گل جی آگیا، اس کا انٹرویو دیکھو، کیسے زور زور سے سانس لیتا ہے، دمہ ہے شاید، کتنا کمزور اور بوڑھا آدمی ہے، لیکن ابھی دیکھو جب اس کو تصویر بناتے دکھائیں گے تو کیسے پوری طاقت سے برش گھمائے گا اور ایک دم آدھی تصویر بنا دے گا‘۔ اس وقت شاید گل جی نے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور وہ اپنے مخصوص اسٹروکس کی تیاری میں تھے کہ جن میں برش اس وقت کینوس سے اٹھاتے تھے جب پینٹ بالکل ختم ہونے والا ہوتا تھا۔

گل جی کی ایک پینٹنگ
گل جی کی ایک پینٹنگ

کیملز آن وائٹ
کیملز آن وائٹ

رقعات صادقینی (صادقین کے خطوں کی کتاب) میں اپنے 10 سال بڑے بھائی کاظمین کو خط لکھتے ہوئے ایک مرتبہ صادقین نے بتایا کہ آرٹ کا سارا کھیل اسٹاک مارکیٹ جیسا ہے۔ آرٹ کے نقاد اور انویسٹر مل کر جوڑ توڑ کرتے ہیں پھر جس فنکار میں پوٹینشل نظر آ رہا ہوتا ہے پہلے اس کی تصویریں خریدی جاتی ہیں اور بعد میں اس کی ایک مثبت قسم کی ہوا باندھی جاتی ہے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وہی تصویریں جو فرض کریں ہزار روپے فی تصویر کے حساب سے خریدی گئی ہوتی ہے وہ بعد میں لاکھوں روپے کی بکتی ہیں۔ تو پورا ماحول بنا کر پہلے ایک فنکار کو اٹھایا جاتا ہے اور پھر جہاں تک ممکن ہوتا ہے اس سے خریدے گئے پرانے اسٹاک کو منہ مانگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ جب پچھلا اسٹاک سارا بک جائے تب آرٹسٹ کے اچھے دن شروع ہوتے ہیں۔ صادقین کے اچھے دن بھی بہت بعد میں جاکر شروع ہوئے ورنہ پہلے وہ بے چارے پیرس سے ہر خط میں بھائی کو یقین دلا رہے ہوتے تھے کہ بھیّا یہ والی نمائش بھی بس نام شام بڑھانے والی ہے، ادھر تصویریں بکتی نہیں ہیں بس نقادوں کو دکھانے کے واسطے لگائی جاتی ہیں۔ حساب لگایا جائے تو کم از کم 8 سے 10 سال بعد صادقین اچھی پوزیشن میں آئے۔

گل جی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ وہ بہت حساب کتاب کے ساتھ چلنے والے انسان تھے۔ ایک فنکار ہوتا ہے جو مست الست اللہ لوک قسم کا ہوتا ہے، جبکہ ایک فنکار ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنے فن کی قدر جانتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ٹیلنٹ کو استعمال کیسے کرنا ہے یا محنت اگر کی ہے تو اسے ٹھکانے کیسے لگانا ہے۔ گل جی میں آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ جوہر موجود تھا۔

وہ بے مہار فن، فن برائے فن یا فنا فی الشوق ہونے کے قائل نہیں تھے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے کیا بنانا ہے اور کیا بالکل نہیں بنانا اس کا انہیں اچھی طرح علم تھا۔ بالفرض گل جی کسی راہ چلتے فقیر کے جھریوں زدہ چہرے سے متاثر ہوتے اور وہ اس کا پورٹریٹ بنا دیتے تو اسے کس نے خریدنا تھا؟ یا تو وہ فقیر خود خریدار ہوتا اور یا پھر کوئی گیلری والا اونے پونے داموں لے لیتا، گل جی نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے زیادہ تر ان لوگوں کے پورٹریٹس بنائے جو اس قابل تھے۔

گل جی اپنی اہلیہ کے ساتھ
گل جی اپنی اہلیہ کے ساتھ

گل جی اگر عورتوں کی تصویریں بناتے جو بہت زیادہ سڈکشن والی ہوتیں یا بہت زیادہ اداس ہوتیں یا بس خالی عورتیں ہی ہوتیں تو انہیں کس پڑھے لکھے پاکستانی بھائی نے خریدنا تھا؟ اقبال حسین کی طرح ان پر حملے ہوتے، ان کی نمائشیں اٹھائی اور جلوائی جاتیں، تو بس گل جی نے گھوڑے بنائے اور بہت سے بنائے اور کیا ہی خوبصورت بنائے!

گل جی اگر سیدھے سیدھے ایبسٹریکٹ بنا دیتے تو ادھر جو سیدھی تصویر کو نہیں جانتا وہ ایبسٹریکٹ کیا خریدتا؟ تو گل جی نے ہر ایبسٹریکٹ کو معنی عطا کیے، ایبسٹریکشن (ویسے جسے معنی مل گئے وہ ایبسٹریکٹ کیا رہا؟) کی سرحد کے اندر رہتے ہوئے خطاطی کی، اللہ کے نام لکھے اور ایسے لکھے جنہیں ہر آدمی پڑھ سکتا تھا، اب چونکہ پڑھ سکتا تھا اس لیے وہ گل جی کو پہچانتا بھی تھا اور چونکہ ہر خاص و عام گل جی کو جانتا اور پہچانتا تھا اس لیے چغتائی اور صادقین کے بعد گل جی ہمارے مشہور ترین مصور تھے۔

ایبسٹریکٹ ایکسپریشنزم (تجریدی اظہاریت/ علامتی تجریدیت) ان دنوں زوروں پر تھا جب گل جی امریکا گئے۔ وہ انجنیئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے تھے اور ساتھ ساتھ شوقیہ طور پر مصوری بھی کرتے تھے۔ ان کے پہلے استاد ان کے دادا حاکم ابو علی اسماعیلی تھے۔ تو 1926ء میں پیدا ہونے والا عبدالحمید اسماعیلی اپنے دادا سے پینٹنگ سیکھتا رہا اور جب امریکہ گیا تو وہاں اس نے ایبسٹریکٹ ایکسپریشنز کی تصویریں بنانا شروع کردیں اور وہ گل جی کی شاہکار تصویریں کہلائیں۔

گل جی ایک ذہین طالب علم تھے۔ والد کی وفات ان کے لڑکپن میں ہوگئی تھی اور معاشی حالات کچھ خاص بہتر نہیں تھے لیکن گل جی نے ہمت نہیں ہاری۔ آخر مسلسل محنت کے نتیجے میں جب انجینئرنگ کا نتیجہ آیا تو گل جی نے علی گڑھ یونیورسٹی کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی سے اسی برس (1946ء میں) اسکالرشپ مل گئی اور گل جی پڑھنے چلے گئے (ہائیڈرالکس انجینئرنگ میں ایم اے کیا، ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی) اب گل جی پڑھ رہے تھے اور تصویریں بھی بنا رہے تھے۔

گل جی کی پینٹنگ
گل جی کی پینٹنگ

1950ء میں انہوں نے اپنی تصویروں کی نمائش کی اور وہ سوپر ہٹ ثابت ہوئی۔ وجہ کیا تھی؟ ایبسٹریکٹ ایکسپریشنزم ان دنوں نیا تھا، بہت سے پرانے مصور بھی اس میدان میں کود پڑے تھے لیکن ان کی تصاویر مہنگی تھیں۔ گل جی کا سارا کام معیاری تو تھا ہی، بہتر قیمت میں بھی دستیاب تھا، تو آرٹ کے قدردانوں نے ہاتھوں ہاتھ ان کے فن پارے خریدنا شروع کیے اور نقادوں کی نظریں بھی ان کے بہترین مستقبل کی طرف جم گئیں۔

یہ کام تھا کیا؟ ایبسٹریکٹ ایکسپریشنزم کو بعد میں ایکشن پینٹنگ کے نام سے زیادہ جانا گیا۔ تو ایکشن پینٹنگ کا ہلکا سا تعارف یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ایسی تصویر جس میں لگے کہ رنگ بس بے دھیانی سے پھینک دیے گئے ہیں اور انہیں ملا کر کوئی تصویر بنائی جائے، وہ ایکشن پینٹنگ کہلاتا ہے۔

دیکھنے اور سوچنے میں تو یہ کام آسان نظر آتا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ گل جی کی تصویریں دیکھیں تو پہلا سوال دماغ میں آتا ہے کہ یا خدا، اتنا بڑا برش کہاں سے لاتے ہوں گے؟ پھر اتنے سارے رنگ ملا کر ایسا پرفیکٹ اسٹروک کیسے لگاتے ہوں گے کہ ہاتھ رکھا تو کچھ نہ تھا اور ہاتھ ہٹایا تو کینوس پر ایک مکمل قوس قزح کے ساتھ مقدس نام موجود ہیں۔

ہز ہائنیس پرنس کریم آغا خان چہارم کا پورٹریٹ
ہز ہائنیس پرنس کریم آغا خان چہارم کا پورٹریٹ

شروع میں گل جی مکمل طور پر ایبسٹریکٹ کام کرتے تھے، خطاطی کی آمیزش بعد میں ہوئی اور پھر یہ جاندار اسٹروک ان کی پہچان بن گیا۔ پہچان کا معاملہ یہ ہے کہ ہر آرٹسٹ کا اپنا کچھ الگ سے معاملہ ہوتا ہے۔ جمیل نقش کے کبوتر، شاکر علی کا لال رنگ، شمزا کے یہاں پودوں کی جڑوں جیسی خطاطی، وان گوف کے بڑے اور وحشی اسٹروکس، خالد اقبال کے ہلکے دھیمے واٹر کلر... یہ سب کچھ آرٹسٹ کو ایک الگ شناخت دیتا ہے، یہ اس کی پہچان ہوتی ہے، تو گل جی کی پہچان ان کا وہ دیوانہ وار اسٹروک تھا جو اپنی ایکشن پینٹنگ والی خطاطی میں وہ لگایا کرتے تھے۔

پھر گل جی نے پورٹریٹ بنانا شروع کیے۔ گل جی نے ایک ملاقات میں شفیع عقیل کو بتایا تھا، ’مجھے بچپن میں گھڑسواری کا بہت شوق تھا لیکن حالات ایسے تھے کہ میں گھوڑا تو کیا ایک سائیکل بھی نہیں خرید سکتا تھا‘۔ تو وہ بچہ جو سائیکل تک نہیں خرید سکتا تھا، اسے اچھی طرح علم تھا کہ اس نے کیا بنانا ہے اور کیا نہیں بنانا۔

گل جی نے افغان بادشاہ ظاہر شاہ کا ایک پورٹریٹ بنایا، اور جب وہ پاکستان آئے تو انہیں پیش کیا۔ ظاہر شاہ نے پورٹریٹ اس قدر پسند کیا کہ ان کی دعوت پر گل جی پھر افغانستان گئے اور شاہی خاندان کے 151 پورٹریٹس بنائے۔ امریکی صدور کی تصویریں بنائیں، سعودی رہنماؤں کے اسکیچز بنائے، ایرانی ملکہ کو مصور کیا، پاکستانی سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں کی تصویر کشی کی، آغا خان کی تصویریں بنائیں بلکہ پرنس کریم آغا خان کے ساتھ ہی وہ مشرقی پاکستان گئے ہوئے تھے جہاں ان کی ملاقات اپنی ہونے والی بیگم سے ہوئی۔ ایک مشترکہ دوست کی وجہ سے دونوں کا تعارف ہوا، گل جی نے اپنے دورے کو اور طویل کرلیا اور وہیں مشرقی پاکستان میں ٹھہرے رہے۔ پھر زرینہ اسکالرشپ پر امریکہ چلی گئیں۔

گل جی اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ
گل جی اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ

سنسناٹی یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کرنے کے بعد زرینہ لندن میں بطور ریسرچ کیمسٹ ملازمت کر رہی تھیں جب گل جی انہیں دوبارہ ملے۔ پھر جب دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا تو پہلے بمبئی جا کر گل جی نے زرینہ کے والدین سے ملاقات کی، کچھ ہی دنوں بعد پیرس میں زرینہ اور گل جی کی شادی پرنس کریم آغا خان کی موجودگی میں ہوگئی۔ یہ 1962ء کا سال تھا۔ زرینہ گل جی اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آگئیں اور انہوں نے آرائشی سنگِ مرمر کا تھوڑا بہت کام شروع کردیا۔

گل جی کی بے پناہ مصروف زندگی میں زرینہ ایک بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ مینیجر کی حیثیت بھی رکھتی تھیں۔ کھانے کا ٹائم یاد دلانا (اور ہر بار دلانا) کس سے ملنا ہے، کب ملنا ہے، کہاں جانا ضروری ہے، ان سب چیزوں کا حساب کتاب زرینہ گل جی رکھا کرتیں (گل جی کی بہت سی تصویروں پر تو ٹائٹل اور تاریخ تک نہیں ہوتی تھی، وہ باقی چیزیں کیا یاد رکھتے؟) وہ اب مکمل طور پر آرٹ کی دنیا میں گم ہوچکے تھے۔ زرینہ پینٹنگز میں تو نہیں لیکن گل جی کے ماربل موزیکس والے کام میں ان کا ٹھیک ٹھاک ہاتھ بٹاتی تھیں۔

گھر پر ماربل کی تراش خراش کا سامان دیکھ کر ہی گل جی کو پتھروں سے تصاویر بنانے کا خیال آیا ہوگا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ ماربل کے ٹکڑوں سے گل جی نے پہلے ایک رقاصہ کی تصویر بنائی۔ سنگِ مرمر میں سلیٹی سے لے کر کالے رنگ تک جتنے بھی شیڈز ممکن تھے وہ شاید اس میں نظر آئیں گے۔ پھر گل جی نے لاجورد (LAPIZ LAZULI) سے تصویریں (موزیک) بنانی شروع کردیں۔ اب بندہ ایک بنائے 2 بنائے، 3 بنائے سمجھ میں آتا ہے، لاجورد میں گل جی نے ان گنت موزیکس بنائے اور جتنا بھی کام کیا سب ایک سے بڑھ کے ایک تھا۔

گل جی کی پینٹنگ
گل جی کی پینٹنگ

ذرا سوچیے، نیلے رنگ کا پتھر ہے، اس سے پورا چہرہ بنانا ہے، کتنے شیڈ نکالے جاسکتے ہیں اور کیسے نکالے گئے ہوں گے؟ پتھر کے 5 سے 6 ہزار چھوٹے ٹکڑے ملتے ہیں تو ایک تصویر بنتی ہے اور ایک ٹکڑا بھی اگر نہ بیٹھ رہا ہو، رنگ ٹھیک نہ ہو تو اس کی تلاش اور اس کی ٹھیک سے تراش خراش میں ہفتوں لگ جانا بھی ممکن ہے۔

ابھی 2 سے 3 سال پہلے پرنس کریم آغا خان کو ان کی سالگرہ پر اسماعیلی برادری کی طرف سے لاجورد ہی کی بنی گھوڑوں والی وہ تصویر پیش کی گئی جو گل جی نے 1984ء کے آس پاس بنائی تھی۔ یہ ان کی زندگی کے 80 برس پورے ہونے پر یقیناً ایک قیمتی اور یادگار تحفہ تھا۔ اسی لاجورد میں بھٹو اور صدر ریگن سمیت بہت سے عالمی رہنماؤں کی تصویریں گل جی نے بنائیں اور وہ دور بھی اہلِ پاکستان نے دیکھا جب گل جی باقاعدہ اسٹیٹ پینٹر سمجھے جاتے تھے اور مختلف ممالک کے سرابرہ اپنی اور اپنے خاندان کی تصویریں گل جی سے بنوانا ایک اعزاز سمجھتے تھے۔ پشاور کے کریم پورے میں پیدا ہونے والا گل جی ایک ورلڈ کلاس پورٹریٹ پینٹر تھا!

گل جی کی پینٹنگ
گل جی کی پینٹنگ

نئے بوہیمئین ٹائپ فنکار بچوں کو آفیشلی گل جی کے حالات زندگی پڑھانے چاہئیں اور اس میں یقیناً ان کے لیے فلاح ہے۔ لائق فائق آدمی جو بہترین نمبروں سے انجینئرنگ کرتا ہے، سرکاری ملازمت میں ہوتا ہے، ڈیموں (اصلی) کی تعمیر کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے بیرون ملک دورے کر رہا ہوتا ہے، وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچانک تصویریں بنانا شروع کرتا ہے اور ایسا کامیاب ہوتا ہے کہ بعد از مرگ 2012ء میں اس کی پینٹنگ ایک غیر ملکی نیلام گھر میں 90 لاکھ روپے سے زیادہ مالیت میں بکتی ہے۔ وہاں موجود تمام فن پاروں سے زیادہ قیمت گل جی کے فن کی ٹھہرتی ہے اور تصویر کا عنوان ’بز کشی‘ ہوتا ہے جو 1965ء میں بنائی گئی ہوتی ہے، جس وقت امین گل جی شاید ایک برس کے ہوں گے۔

گل جی اور ان کی شریکِ حیات 2007ء کی ایک منحوس صبح مردہ پائے گئے۔ انہیں قتل کیا گیا تھا۔ تحقیقات میں علم ہوا کہ یہ قتل ان کے نوکروں نے ہی کیا تھا۔ 2 ماہ بعد جب وہ گرفتار ہوئے تو گل جی کی 2 پینٹنگز اور ایک عدد گاڑی ان کے پاس تھی۔ کیس چلا اور 2017ء میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ امین گل جی اپنے والد کی زندگی میں ہی ایک الگ شناخت بناچکے تھے۔ اس وقت وہ پاکستان کے مشہور آرٹسٹوں میں سے ایک ہیں۔

امین گل جی، بہت لیٹ سہی لیکن فقیروں کا پرسہ قبول کیجیے، گل جی اپنے روشن اور چمکدار رنگوں کی طرح ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے!


حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔ فیس بک پر آپ انہیں یہاں فالو کرسکتے ہیں۔