مسمار ہونے سے بچ جانے والا گاؤں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا

17 نومبر 2018
اب اس گاؤں میں مجموعی طور پر 11 گھروں میں لوگ مقیم ہیں—فوٹو: اے ایف پی
اب اس گاؤں میں مجموعی طور پر 11 گھروں میں لوگ مقیم ہیں—فوٹو: اے ایف پی

اگرچہ دنیا بھر میں تاریخی اور قدیمی عمارتیں اور علاقے ابتداء سے ہی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

تاہم جدید دور کی فن تعمیرات اور تقاضوں کے پیش نظر دنیا بھر میں کئی پرانی عمارتوں، گھروں اور علاقوں کو مسمار کرکے انہیں دوبارہ تعمیر کیے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

چین کے زیر انتظام ملک تائیوان میں بھی ایک ایسا گاؤں موجود ہے، جسے اگرچہ حکومت مسمار کرنا چاہتی تھی، تاہم اب وہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

چند دہائیاں قبل آباد کیے گئے اس گاؤں کے گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، جس وجہ سے حکومت انہیں مسمار کرنا چاہتی تھی اور سرکار نے گاؤں والوں گھروں کے عوض بھاری معاوضہ یا متبادل جگہ کی پیش کش بھی کی۔

تاہم اس گاؤں میں 4 دہائیوں تک زندگی گزارنے والے چند معمر افراد نے حکومت کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس گاؤں کی قسمت بدل گئی۔

سب سے پہلے طلبہ کے ایک گروپ نے یہاں کا دورہ کیا—فوٹو: اے ایف پی
سب سے پہلے طلبہ کے ایک گروپ نے یہاں کا دورہ کیا—فوٹو: اے ایف پی

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اس گاؤں کی قسمت اس وقت بدلی، جب کہ گاؤں کے ایک رہائشی عمر رسیدہ شخص نے تمام گھروں، گلیوں اور دیواروں کو رنگوں کے ذریعے خوبصورت اور دیدہ زیب بنادیا۔

آرٹ گیلری میں تبدیل ہونے کے بعد گاؤں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اب ہر سال یہاں تقریبا 10 لاکھ سیاح گھومنے آتے ہیں۔

اپنے گھر اور گاؤں کے دیگر تمام گھروں کو آرٹ گیلری میں تبدیل کرنے والے 96 سالہ ہانگ یانگ نے بتایا کہ انہوں نے اگرچہ کبھی بھی پروفیشنل پینٹنگ یا مصوری نہیں کی، تاہم انہیں بچپن میں والد نے سکھایا تھا کہ رنگ کیسے بھرتے ہیں۔

ہانگ یانگ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس گاؤں میں 37 سال گزارے ہیں، جس وجہ سے ان کی بہت ساری یادیں اس سے وابستہ ہیں اور وہ اس گاؤں اور گھروں کو کھونا یا مسمار ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

ہانگ یانگ کو رینمبو دادا بھی کہا جاتا ہے—اسکرین شاٹ/ بی بی سی ویڈیو
ہانگ یانگ کو رینمبو دادا بھی کہا جاتا ہے—اسکرین شاٹ/ بی بی سی ویڈیو

انہوں نے بتایا کہ جب اس گاؤں کو آباد کیا گیا تھا تو یہاں پر 1200 گھر تعمیر کیے گئے تھے، لیکن اب یہاں صرف 11 گھر بچ گئے تھے، جنہیں حکومت مسمار کرنا چاہتی تھی اور اس کے بدلے ہمیں معاوضے کی پیش کش بھی کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 96 سالہ شخص نے گاؤں کو آرٹ گیلری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد وہ ہر روز صبح 3 بجے نیند سے اٹھ کر گھروں کی دیواروں پر تصاویر بنانے اور رنگ کرنے کے کام کا آغاز کرتا۔

یوں عمر رسیدہ شخص نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے گاؤں کو خوبصورت کینوس اور آرٹ گیلری میں تبدیل کردیا، جس نے سیاحوں کی توجہ حاصل کرلی اور اب یہاں سالانہ 10 لاکھ سیاح آتے ہیں۔

چین بھر سے نوجوان یہاں آتے ہیں—فوٹو: تیچنگ گائیڈ
چین بھر سے نوجوان یہاں آتے ہیں—فوٹو: تیچنگ گائیڈ

اسی گاؤں کے حوالے سے ماضی میں سی ٹی وی نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ گاؤں کے آرٹ گیلری میں تبدیل ہونے کے بعد یہاں طلبہ کا ایک گروپ آیا، جسے یہ گاؤں بہت پسند آیا اور انہوں نے اس کے تحفظ کے لیے مہم چلائی۔

طلبہ کی مہم اور عمر رسیدہ شخص کی جانب سے کی گئی محنت کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے یہ گاؤں مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کا مرکز بن گیا اور لوگ جوق در جوق یہاں آنے لگے۔

اب حکومت نے بھی اس گاؤں کو مسمار کرنے کا فیصلہ ترک کرلیا ہے، جب کہ ہانگ یانگ بھی اپنے دیگر ہم عمر دوستوں کے ساتھ اپنے گاؤں اور گھر میں خوش نظر آتے ہیں۔

ہانگ یانگ نے گاؤں کے گھروں اور دیواروں پر پرندوِں، درختوں اور معروف فلمی و سیاسی شخصیات کی تصاویر بنائی ہیں اور گاؤں کی ہر دیوار کسی آرٹ گیلری کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

اب سالانہ 10 لاکھ سیاح اس گاؤں کا دورہ کرتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
اب سالانہ 10 لاکھ سیاح اس گاؤں کا دورہ کرتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں