اسلام آباد: دنیا بھر میں ہفتہ برائے اینٹی بائیوٹک آگاہی کے موقع پر ماہرین صحت نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحت عامہ کوسب سے بڑا خطرہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے غلط استعمال سے ہے جس سے ایک بار اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے قابلِ علاج مرض مستقبل میں ناقابلِ علاج ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ ہفتہ ہر سال 12 نومبر سے 18 نومبر تک منایا جاتا ہے جس میں اس سال کی تھیم کا عنوان ہے ’تبدیلی انتظار نہیں کرتی، اینٹی بائیوٹک کے ساتھ ہمارا وقت تیزی سے اختتام پذیر ہے‘ ۔

اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر نسیم اختر کا کہنا تھا کہ جسم میں اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت اس وقت جنم لیتی ہے جب بیکٹیریا ادویات کے اثرات کو ختم کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خراب گلے کے لیے اینٹی بائیوٹکس؟ سوچ لیں

چناچہ جب بیکٹیریا مزاحمت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں جو سنگین انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب اینٹی بائیوٹک کام کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اسکے نتیجہ طویل مدتی امراض، بار بار ڈاکٹر کے پاس جانا، ہسپتال میں داخل ہونا اور مزید مہنگی اور مہلک اینٹی بائیوٹک کے اخراجات کی صورت میں نکلتا ہے۔

کچھ صورتوں میں اینٹی بائیوٹک کے خلاف بیکٹیریا مزاحمت سے پیدا ہونے والا انفیکشن معذوری اور حتیٰ کہ موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق جراثیم دور کرنے کے خلاف مزاحمت (اینٹی مائیکروبائل) نے آئندہ 35 سالوں میں ایک کروڑ اموات ہونے کا اندیشہ ہے جس کے سدِ باب کے لیے ابھی کچھ نہ کیا گیا تو 2050 تک اس کی لاگت کا تخمینہ ایک ہزار کھرب ڈالر ہوجانے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان کیلئے صحت کا انتباہ جاری کردیا

پمز میں اسسٹنٹ پروفیسر ماہر امراض حلق کان ناک ڈاکٹر الطاف حسین کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹکس ٹھنڈ، نزلہ زکام، گلے کی خرابی، خشک کھانسی اور سانس اور کان کے متعدد انفیکشنز جیسے وبائی امراض کے خلاف موثر نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 88 فیصد غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کرنا نظامِ تنفس کے مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔

ڈاکٹر حسین نے اس بات پر زور دیا کہ عوام صرف اس صورت میں اینٹی بائیوٹک استعمال کریں جب کوئی مستند ماہرِ امراض تجویز کرے اور اس کے نسخے پر پوری طرح عمل بھی کریں چاہیں ان کی طبیعت بہتر ہی کیوں نہ ہوجائے۔

یہ بھی پڑھیں: 5 قدرتی اجزاء جو اینٹی بائیوٹک کا کام کرتے ہیں

کیوں کہ تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال روک دینے سے بیکٹیریا میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔

اس حوالے سے وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ محکمہ تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مشترکہ تعاون سے اے ایم آر کے لیے مربوط منصوبہ بندی ترتیب دی گئی ہے۔

اس منصوبے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان ادویات کے اندھادھند استعمال کی وجہ سے ان کی قیمتیں کم کی جائیں اورجب تک لوگوں کو ضرورت ہو موجودہ اینٹی مائیکروبائل موثر رہیں۔


یہ خبر 19 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں