وزیر اعظم عمران خان سے افغانستان میں قتل ہونے والے خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایس پی طاہر داوڑ کے بھائی اور بیٹے نے ملاقات کی جہاں وزیر اعظم نے شہید ایس پی کی خدمات کو سراہا۔

وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں عمران خان سے شہید ایس پی کے بھائی اور بیٹے کی ملاقات کے دوران وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی، وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کے پی بھی موجود تھے۔

اس موقع پر وزیرِ اعظم نے شہید ایس پی طاہر داوڑ کے غم زدہ خاندان سے اظہار ہمدردی کیا اور شہید کے ایصال ثواب اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘ایس پی طاہر داوڑ ایک نڈر اور فرض شناس افسر تھے، ان کی فرض شناسی اور بہادری محکمہ پولیس کے لیے باعث افتخار ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: ایس پی طاہر خان داوڑ کا اغوا، قتل: وزیراعظم کا معاملے کی تحقیقات کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایس پی طاہر داوڑ کی شہادت سے پولیس کا محکمہ ایک ذمہ دار اور فرض شناس افسر سے محروم ہو گیا’۔

وزیراعظم نے ایس پی طاہر داوڑ کے خاندان کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

یاد رہے کہ دیہی پشاور کے ایس پی طاہر خان داوڑ کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد 13نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ان کی لاش ملی تھی اور ایک دن بعد افغان حکام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس سپرنٹنڈنٹ کو قتل کرنے سے قبل انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے ایس پی طاہر خان داوڑ کی لاش افغانستان سے ملنے کے معاملے پر کے پی حکومت اور اسلام آباد پولیس کو فوری طور پر مشترکہ تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد 16 نومبر کو چیف کمشنر اسلام آباد نے وفاقی پولیس کی سفارش پر تفتیش کے لیے (ایس پی) انوسٹی گیشن اسلام آباد کی سربراہی میں 7 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

مزید پڑھیں: ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کی تفتیش کیلئے 'جے آئی ٹی' تشکیل

تاہم (ایس پی) طاہر خان داوڑ کے بھائی احمدالدین داوڑ نے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی 7 رکنی جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے بھائی حساس شہر سے لاپتہ ہوئے اور ان کی لاش افغانستان میں ملی، اس لیے اس کیس میں ایک ملک نہیں بلکہ دو ممالک ملوث ہیں۔'

احمدالدین داوڑ کا کہنا تھا کہ 'جب دو ممالک کا معاملے سے تعلق ہو تو فیصلہ بھی عالمی سطح پر کیا جانا چاہیے اور کیس کی نوعیت کو نظر میں رکھتے ہوئے تحقیقات کے لیے بین الاقوامی جے آئی ٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔'

تبصرے (0) بند ہیں