اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ فرد کی بازیابی میں ناکامی پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے اراکین، سیکریٹری برائے دفاع و داخلہ، اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پر 20 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ فرد عبداللہ عمر کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے متعلقہ حکام پر جرمانے کا حکم دیا۔

عدالت نے عبداللہ عمر کی بازیابی کے لیے 6 ماہ کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ اگر جے آئی ٹی کے اراکین انہیں تلاش کرنے میں ناکام ہوئے تو وزیر اعظم انہیں عہدوں سے برطرف کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں بھی لاپتہ افراد اور ان کے گھر والوں کا احساس ہے، چیف جسٹس

واضح رہے کہ عبداللہ عمر نامی شخص مبینہ طور پر سابق وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی اور بے نظیر بھٹو قتل کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے استغاثہ ذوالفقار علی کے قتل میں ملوث بتایا جاتا ہے۔

جس پر عبداللہ عمر کے وکیل ڈاکٹر عتیق طاہر نے موقف اختیار کیا کہ عدالت شہباز بھٹی قتل کیس کے مرکزی ملزم کو رہا کرچکی اور ان کے موکل کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے متعلقہ انتظامیہ پر بھاری جرمانہ عائد کیا اور مذکورہ شخص کا پتہ لگانے میں ناکامی پر عدالتی احکامات کے تحت عہدیداروں کو ان کی ملازمت سے برطرف بھی کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: خفیہ اداروں کو لاپتہ سائنسدان سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم

ان کا مزید کہنا تھا کہ عبداللہ عمر کو بازیاب کروانے میں ناکامی پر پولیس انتظامیہ کے ساتھ جے آئی ٹی کے اراکین کو بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

ڈاکٹر عتیق طاہر کے مطابق جے آئی ٹی میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیز، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے عہدیداران شامل ہیں۔

خیال رہے کہ درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ ان کے شوہر کو بازیاب کروایا جائے جو مبینہ طور پر ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں، انہوں نے درخواست میں انڈسٹریل ایریا کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او)، آئی جی اسلام آباد، وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ایجنسیز کو فریق بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگی کو قانونی جرم قرار دیا جائے گا، ڈاکٹر شیریں مزاری

خاتون کا دعویٰ تھا کہ 2013 میں راولپنڈی میں فائرنگ کے واقعے میں ان کے شوہر زخمی ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو کر معذور ہوگئے تھے، یہ واقعہ اس وقت رتہ امرل پولیس اسٹیشن میں رپورٹ ہوا تھا۔

خاتون کا مزید کہنا تھا کہ ان کے شوہر کو قائداعظم انٹرنیشنل ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں سے انہیں سیکیورٹی حکام نے گرفتار کیا اور وہ 2015 تک زیر حراست رہنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔

خاتون کے مطابق بعد میں 20 جون 2015 کو انہیں مبینہ طور سیکیورٹی ایجنسیز نے ’اغوا‘ کیا، اس وقت ان کے ہمراہ حماد دادن نامی وکیل بھی موجود تھے جنہیں ان کے والد کی جانب سے پٹیشن فائل کرنے پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد معاملہ: لشکری رئیسانی کا حقائق کمیشن کے قیام کا مطالبہ

یہاں یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ اسلام آباد پولیس نے عبداللہ عمر کو مبینہ طور پر القاعدہ کا کارکن ہونے اور جون 2013 میں چوہدری ذوالفقار پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ عبداللہ عمر اس وقت زخمی ہوئے جب چوہدری ذوالفقار کے گارڈز نے حملہ آوروں پر جوابی فائر کیے۔

پولیس کے مطابق عبداللہ عمر کو فائرنگ کے نتیجے میں 3 گولیاں لگی تھیں جنہوں نے قائد اعظم انٹرنیشنل ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹر کو بتایا تھا کہ وہ ڈاکوؤں کے حملے میں زخمی ہوئے۔


یہ خبر 20 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں