اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کا عبوری حکم نامہ جاری کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل بینچ نے 16 نومبر کو کیس کی سماعت کی تھی، جس کے بعد آج (20 نومبر کو) 5 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا۔

عدالت نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی رجسٹریشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی تھی، تاہم سیکریٹری الیکشن کمیشن عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ عدم حاضری کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، تاثر یہ ہے کہ حکومت اس کیس کو چلانا ہی نہیں چاہتی۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس میں سیکیورٹی اداروں کی سرزنش

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن بتائیں کہ ایسی جماعت جس نے نظام زندگی درہم برہم کردیا، اربوں روپے کا معاشی و جانی نقصان ہوا، کیا اس طرح کی پارٹی کو بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ کیا جاسکتا ہے؟

عدالت نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کی رجسٹریشن کے لیے ایسے شخص کا شناختی کارڈ دیا گیا، جس کا رہائشی پتہ دبئی کا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کا نمائندہ یہ بتانے میں ناکام رہا کہ آیا مذکورہ شخص دوہری شہریت کا حامل ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان نے اپنے اخراجات کی تفصیلات جمع نہیں کرائی، اس بارے میں جب الیکشن کمیشن کے نمائندے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ایک مصنوعی قانون ہے۔

عدالت نے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات تعجب کی باعث ہے کہ الیکشن کمیشن نمائندہ اپنے ادارے کے قانون کو مصنوعی کہہ رہا ہے، اس بیان سے الیکشن کمیشن کی ساکھ بری طرح سے مجروح ہوئی ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن وضاحت کرے کیا وہ اپنے نمائندے کے بیان سے متفق ہے۔

عبوری حکم نامے میں کہا گیا کہ اس معاملے میں ہمیں تعین کرنا ہے احتجاج کی حدود کیا ہوتی ہیں جبکہ یہ بھی تعین کرنا ہے کہ ریاست احتجاج کرنے والوں سے کیا سلوک رواں رکھے۔

عدالت نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا تحریک انصاف کے دھرنے کا اس احتجاج سے تقابل کیا جاسکتا ہے۔

عدالتی حکم نامے کے مطابق چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے چینلوں کی بندش کے بارے میں رپورٹ طلب کی تھی لہٰذا دیکھنا پڑے گا کیا کیبل آپریٹر چینلز بند کرسکتے ہیں کیونکہ اظہار رائے کی آزادی بنیادی حق ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ وزارت دفاع، انٹرسروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) اور دیگر ذیلی اداروں سے لاگو قوانین پر رپورٹ مانگی تھی لیکن خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر قانون کوئی جواب نہیں دے سکے۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس:خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری جاری

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں