امریکا میں صحافی برادری نے اتفاق و اتحاد کا ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔ ایک ایسا پیغام جس پر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔

جب وائٹ ہاؤس میں سی این این کے نمائندے پر پابندی عائد ہوئی، تو سی سی این چینل کی طرف سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف درج مقدمے کی حمایت میں کئی میڈیا اداروں نے عدالتوں کی معاونت کرتے ہوئے اپنے بیانات درج کروائے۔

جم اکوسٹا (سی این این کے نمائندے) پر پابندی دراصل صدر ٹرمپ کی جانب سے میڈیا پر تازہ ترین حملہ ہے، جسے وہ ایک ایسی ’اشرافیہ میڈیا‘ (Elite media) پکارتے ہیں اور یہ جان لیوا خطرات کا باعث بھی بن سکتا ہے (مثلاً سی این این کے نیویارک میں واقع دفتر کے باہر بم پیکیج موصول ہوا)۔

تاہم اس بار جو سب سے حوصلہ افزا بات نظر آئی، وہ تھی دائیں بازو کے میڈیا ادارے فاکس نیوز کی سی این این کے لیے زبانی حمایت، یعنی اہم ‘رجعت پسندانہ‘ اور ’لبرل‘ میڈیا اداروں کے درمیان ایک ناممکن سا اتحاد نظر آیا۔

ریٹنگز کی دوڑ اور نظریاتی اختلافات سے ہٹ کر دونوں اداروں نے اپنے پیشے (صحافت) کو خطرے میں محسوس کیا، کہ ایک آزاد پریس کا سانجھا دشمن دراصل ایک حاکمانہ سوچ کی کمزور انا ہے۔

جبکہ پاکستان میں نیوز چینلز اکثر باہمی مقابلے کے چکر میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے لگ جاتے ہیں، پھر چاہے وہ غدار کا لقب دینے کی صورت میں ہو یا پھر توہین جیسے سنگین الزامات لگانے کی صورت میں ہو۔

اب اس عمل کو روکنا ہوگا۔

پریس کے دشمن طاقتور ہیں۔

اور وہ مسلح بھی ہیں۔

یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسیفک خطے میں 27 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان، جہاں کئی زاویوں سے ایشیا کے کئی دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ آزاد، یا کم از کم زیادہ متحرک، میڈیا ہے لیکن پھر بھی یہاں صحافیوں کے لیے خطرات اور تشدد سے مستثنیٰ نہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 1992ء سے اب تک کل 60 میڈیا اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ صحافیوں کو کڑے احتساب سے گزرنا پڑتا ہے۔

اس سے حوصلے خطا نہیں ہوں گے۔

اور چند حقیقتیں چند حلقوں کے لیے پریشانی کا باعث بنیں گی۔

لیکن کام میں رکاوٹ اور اکثر و بیشتر پریشان کن حقیقتوں کو آشکار کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ تکلیف کی جڑوں کی نشاندہی کی جاسکے، اگر ہم ان کا واقعی علاج چاہتے ہیں۔

وہ جو سچ یا متعدد زاویوں کے سامنے آنے سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ اپنی پریشانی ختم کرنے کا اقدام کریں گے، چاہے اس کو ساتھ ملا لیا جائے یا پھر خاموش کروا دیا جائے۔

اگرچہ یہ سچ ہے کہ مرکزی دھارے کی میڈیا کی عوامی رائے غرق ہوچکی ہے، اس میں آدھی وجہ بزنس ماڈل، کلک بیٹ کلچر اور 24گھنٹے کے نیوز سائیکل میں صحافت کی روایات اور اخلاقیات کو ایک طرف رکھ دینا ہے، اس کے علاوہ تنقید کو خاموش کروانے کی خاطر سوچی سمجھی پروپیگینڈا مہمات بھی چلائی جاتی رہی ہیں۔

عوامیت (populism) کے اس دور اور کھوکھلے قوم پرستانہ بیانیے کے ابھار میں صحافیوں کو ایک سانجھے دشمن کا سامنا ہے، جو گمراہ کن اطلاعات (misinformation)، غلط اطلاعات (disinformation)، جھوٹی خبریں، افواہیں اور بے لاگ طور پر جھوٹ پھیلاتا ہے۔

انہیں اس کے خلاف متحد ہونا ہی پڑے گا۔


یہ اداریہ 18 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں