اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر بجلی کے نرخوں میں مستقبل قریب میں اضافہ نہیں کرے گی۔

قابلِ تجدید توانائی پالیسی کے سیشن کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجلی کے نرخ میں حال ہی میں 1.27 روپے کا اضافہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل الیکٹرک پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے 3.28 روپے فی یونٹ بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی تھی، تاہم عوام پر اتنا بوجھ ڈالنے کی گنجائش نہیں ہے۔

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بجلی کے نرخ میں اضافے کے بعد بھی حکومت نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کا خیال رکھا اور بجلی کی قیمتوں میں ان لوگوں کے لیے ہی اضافہ کیا گیا جو اس بوجھ کو برداشت کرسکتے ہوں۔

مزید پڑھیں: نیپرا نے بجلی کے حالیہ بریک ڈاؤن پر کے الیکٹرک سے رپورٹ طلب کرلی

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے چھوٹے کمرشل صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جبکہ صنعتوں کو بھی اس میں ریلف دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ذراعت کے لیے استعمال ہونے والے ٹیوب ویلز کے لیے بھی بجلی کے نرخ کو کم کیا گیا۔

کے الیکٹرک سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ اس نجی ادارے کو اپنے نظام کو موثر بنانے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنی چاہیے جبکہ یاد دلایا کہ حال ہی میں مطلوبہ نتائج نہ دینے پر نیپرا نے کے الیکٹرک پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

قبل ازیں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان فوزل فیول برآمد کرتا رہے گا تب تک عالمی مارکیٹ میں مسابقت حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اب پوری دنیا آہستہ آہستہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع پر منتقل ہورہی ہے جبکہ ان کی قیمتوں میں بھی اسی طرح کمی بھی آرہی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ قومی ترسیل کے نظام میں بہت زیادہ تکنیکی خامیاں موجود ہیں، تاہم اب حکومت کو متبادل توانائی پر کام کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: خسارے سے نمٹنے کیلئے بجلی چوروں اور نادہندگان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت اب توانائی کے لیے مقامی ذرائع پر انحصار کر رہی ہے تاکہ بجلی کے نرخ میں بھی کمی لائی جاسکے۔

سیشن میں موجود شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئی پالیسی آنے تک قابلِ تجدید توانائی پالیسی 2006 کو لاگو رکھا جائے، کیونکہ یہ پالیسی توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع سے متعلق سرمایہ کاروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

سیشن کے دوران اتفاق رائے سے تجویز دی گئی کہ حکومت کو آئندہ 20 سے 25 سالوں کے لیے ایک فریم ورک ترتیب دینا چاہیے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم بھی ہوتی رہے۔

اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان میں قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کے نرخ اس وقت کم ترین سطح پر ہیں۔


یہ خبر 21 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں