ناروے کی پولیس ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے جنسی اسکینڈل سامنے لے آئی ہے جہاں ایک 26 سالہ آدمی نے مبینہ طور پر 300 لڑکوں کو جنسی استحصال کا شکار بنایا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اطلاعات ہے کہ مذکورہ شخص فٹ بال ریفری ہے جن کے خلاف چند برسوں سے تفتیش جاری ہے اور 300 کم سن لڑکوں سے جنسی زیادتی میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

پراسیکیوٹر کے مطابق ملزم نے انٹرنیٹ کے ذریعے ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں اکثر بچوں کو نشانہ بنایا جبکہ کئی لڑکوں کا کہنا ہے کہ وہ ان سے براہ راست مل چکے ہیں۔

ناروے سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق ملزم بظاہر سیندرا یا ہنریتے کے نام سے لڑکی بن کر چیٹ فورمز پر لڑکوں سے بات کرتا تھا اور ان کا اعتماد حاصل کرکے برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے کا مطالبہ کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:‘300 مذہبی پیشواؤں نے 1 ہزار بچوں کا ریپ کیا‘

مقامی اخبار کا کہنا تھا کہ ملزم ان لڑکوں کو پیسوں، سیندرا کی میبنہ تصاویر یا تمباکو کی اشیا کی لالچ دیتے تھے اور جب ایک مرتبہ انہیں تصاویر یا ویڈیو بھیجی جاتی تھیں انہیں مزید تصاویر بھیجنے کے لیے انہیں بلیک میل کرنے کی دھمکی دی جاتی تھی۔

ناروے کے سرکاری نشریاتی ادارے این آر کے کا کہنا تھا کہ انہیں 16 ہزار سے زائد ویڈیوز موصول ہوچکی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملزم کے خلاف ریپ کے الزامات آن لائن ویڈیوز اور تصاویر کے لیے مبینہ طور پر دھمکانے کی بنیاد پر عائد کیے گئے ہیں تاہم مذکورہ شخص سے ملاقات کرنے والے متاثرین کے جنسی استحصال کے بھی کئی الزامات ہیں۔

بی بی سی کے مطابق سرکاری پراسیکیوٹر گیورو ہنسن بل کا کہنا تھا کہ ‘ناروے میں اب تک کا سب سے بڑا جنسی استحصال کا کیس ہے’۔

مزید پڑھیں:بھارت: بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کے قانون پر دستخط

ناروے کی پولیس کا کہنا تھا کہ متاثرین کی عمریں 9 سال سے 21 سال کے درمیان ہیں لیکن ان کے والدین کے تاثرات کوئی نہیں جان سکتا۔

متاثرین کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل کا کہنا تھا کہ وہ سب اس کیس کے لیے کوششیں کررہے ہیں کیونکہ انہیں اس غلطی کا مضبوط احساس ہے۔

کیس کی تفتیش 15 رکنی ٹیم نے تصاویر، ویڈیو اور بات چیت کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے کام کیا۔

خیال رہے کہ ملزم کو ابتدائی طور پر 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن انہیں رہا کرنے کے بعد دوسری مرتبہ پھر گرفتار کیا گیا اور اس وقت کو اوسلو کی جیل میں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:'بچوں سے زیادتی کے واقعات پر حکومت سنجیدہ نہیں'

ان کے وکیل گنہلڈ لائرم نے میڈیا کو بتایا کہ وہ پولیس کے ساتھ شروع دن سے تعاون کررہے ہیں اور علاج بھی جاری ہے جبکہ اب بھی ہر کیس کے حوالے سے الگ الگ سوالوں کے جواب دینے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل غیر قانونی طور پر آن لائن موجودگی کے باعث دوہری زندگی گزار رہے ہیں۔

عدالتوں میں اس کیس کی سماعت 2019 سے شروع ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں