'تمام این جی اوز کی نگرانی کرنا ایس ای سی پی کیلئے مشکل عمل'

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2018
اسی ای سی پی کے زیر اہتمام انسداِد مالی معاونت برائے دہشت گردی کے تحت ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا—فوٹو بشکریہ فیس بک
اسی ای سی پی کے زیر اہتمام انسداِد مالی معاونت برائے دہشت گردی کے تحت ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا—فوٹو بشکریہ فیس بک

اسلام آباد: فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو آئندہ برس ستمبر تک پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات کا جائزہ لے کر اس کے گرے لسٹ سے اخراج کا فیصلہ کرنا ہے۔

تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کے لیے انتہائی مشکل کام ہے کہ وہ صوبائی سطح پر رجسٹر ہزاروں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی نگرانی کرے جو مبینہ طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسداد منی لانڈرنگ قوانین (اے ایم ایل) اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے بارے میں ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے شرکا نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ دہشت گردی کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات عالمی معیار کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستانی اقدامات غیر تسلی بخش قرار

واضح رہے کہ ایس ای سی پی نے18-2017 میں 3 ہزار غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور غیر منافع بخش تنظیموں (این پی اوز) کی رجسٹریشن منسوخ کی، جن کے بارے میں خدشہ تھا کہ ان کے اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوئے۔

اس کے باوجود ایس ای سی پی کے پاس ملک بھر میں صوبائی قوانین کے تحت رجسٹر ہونے والی تقریباً 15 ہزار این جی اوز کی نگرانی کرنے کا کوئی اختیار موجود نہیں جبکہ ایف اے ٹی ایف کا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان انسدادِ مالی معاونت برائے دہشت گردی کے لیے اس کی تجاویز پر عمل کرے۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایس ای سی پی کے شعبہ جات برائے انسدادِ منی لانڈرنگ اور بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ خالدہ حبیب کا کہنا تھا کہ کمیشن ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے تحت اس بات کا پابند ہے کہ تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے متعلقہ شعبہ جات، جغرافیائی مقامات، ذرائع اور مصنوعات میں دہشت گردوں کے مالی تعاون کے خطرات کی نشاندہی اور تشخیص کرے۔

مزید پڑھیں: اسد عمر اداروں کی عالمی ماہرین کو مطمئن کرنے میں ناکامی پر برہم

انہوں نے اعادہ کیا کہ ایف اے ٹی ایف نے فروری اور جون میں پاکستان کی جانب سے اے ایم ایل اور سی ٹی ایف پر عمل درآمد میں کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا اندراج ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں کردیا تھا۔

تاہم پاکستان مجوزہ ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کرنے کا عزم رکھتا ہے کیوں کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ملک کا اندراج بلیک لسٹ میں کیا جاسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فی الوقت نگرانی کے 2 طریقہ کار پر عمل درآمد کیا جارہا ہے جس میں سے ایک پاکستان اور ایشیا پیسفک گروپ کی باہمی طور پر پیش کردہ 40 تجاویز جبکہ دوسرا ایف اے ٹی ایف کا 27 نکاتی ایکشن پلان سے متعلق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں