انہیں جب شدید علالت نے آن گھیرا، موت نے ان کے دروازے پر جب دستک دینا شروع کی تو اس کے جواب میں اپنے دوستوں سے وہ کچھ یوں مخاطب ہوئیں۔ ’فی الحال تو ما بدولت دنیا میں موجود ہیں۔ کیوں نہ میں وہ سب کروں، جو کرنا چاہتی ہوں۔ میں ہنزہ جانا چاہتی ہوں، روس جانا چاہتی ہوں، میں نے پھر سے گوگول کی ایک کتاب پڑھنا شروع کی ہے۔‘ وہ ایسی آرزوؤں کے اظہار میں باقی کے دن گزارنا چاہتی تھیں۔ موت کی دستک پر ایسا شاعرانہ جواب دینے والا ’فہمیدہ ریاض‘ کے سوا کون ہوسکتا ہے۔ وہ زندگی سے گویا یوں مخاطب ہوئیں۔

سنگ دل رواجوں کی

یہ عمارت کہنہ

اپنے آپ پر نادم

اپنے بوجھ سے لرزاں

جس کا ذرہ ذرہ ہے

خود شکستگی کا ساماں

سب خمیدہ دیواریں

سب جھکی ہوئی گڑیاں

سنگ دل رواجوں کے

خستہ حال زنداں میں

اک صدائے مستانہ

ایک رقص رندانہ

یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے

یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے

ان کے لکھنے کا ابتدائی معرووف حوالہ تو شاعری ہے، لیکن وہ دھیرے دھیرے نثر کی طرف آگئیں۔ مختلف اصنافِ سُخن میں تخلیقی ہنر کو آزمایا، حیرت انگیز طور پر نثری کام کافی حد تک ان کے شعری کام پر غالب آگیا۔ وہ کلاسیکی لہجے میں، جدید رویے کے ساتھ، روایت اور تصوف کے اسرار و رموز کی گتھیاں سلجھانے لگیں۔ کبھی صوفی شاعروں کے حروف ان کو اپنے سحر میں جکڑنے لگے تو کبھی قدیم تاریخ کے فراموش کردار ان کے دُو بدو ہونے لگے۔

ان کے لکھنے کا ابتدائی معرووف حوالہ تو شاعری ہے، لیکن وہ دھیرے دھیرے نثر کی طرف آگئیں
ان کے لکھنے کا ابتدائی معرووف حوالہ تو شاعری ہے، لیکن وہ دھیرے دھیرے نثر کی طرف آگئیں

انہوں نے اس تخلیقی مرحلے میں بنا کسی مزاحمت کے خود کو اس تخلیقی لہر کے سپرد کردیا۔ اپنی ہم عصر حقوقِ نسواں کا پرچار کرنے والی تصنوع پسند خواتین لکھاریوں سے خود کو فاصلے پر رکھا، اپنے انداز اور اظہار کی بنا پر بھی سب سے جداگانہ رہیں۔

وہ پاکستان کی مقبول شاعرہ، کہانی نویس، ناول نگار، ادبی ناقد اور مترجم کے طور پر متحرک رہیں۔ ان کی پیدائش ہندوستانی ریاست یوپی کے شہر میرٹھ کی تھی۔ والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے، جن کی بالخصوص سندھ میں تعلیم کے حوالے سے کافی خدمات رہیں۔

وہ تقسیم کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستانی شہر حیدرآباد میں رہائش پذیر ہوگئے، اسی لیے ان کو بچپن سے اردو اور سندھی زبان پر دسترس تھی، پھر فارسی زبان پر بھی عبور حاصل کرلیا۔ والد کا انتقال ہوا، تو ان کی عمر بہت کم تھی، والدہ حسنہ بیگم نے پرورش کی، جبکہ زندگی کے مصائب نے تربیت اور شعور عطا کیا۔ اس کے بدلے انہیں ہمت، بے باکی، بہادری اور اعتماد ملا۔ تمام زندگی اپنی شرطوں پر جی کرگئیں۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

کس سے اب آرزوئے وصل کریں

اس خرابے میں کوئی مرد کہاں

انہوں نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لندن سے فلم ٹیکنیک میں ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ اردو شاعری میں ان کا بنیادی حوالہ نظم کا ہے۔ پہلی نظم 15 برس کی عمر میں لکھی جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’فنون‘ میں شایع ہوئی۔ 22 سال کی عمر میں جب ریڈیو پاکستان کے لیے خبریں پڑھنے کی ابتدا کی، اس وقت ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ شایع ہوا تھا۔ وہ کچھ عرصہ انگلینڈ میں بھی قیام پذیر رہیں، جہاں بی بی سی اردو سروس (ریڈیو) سے منسلک تھیں۔

فہمیدہ ریاض نے طالب علمی کے زمانے میں پہلی نظم لکھی، جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’فنون‘ میں شایع ہوئی
فہمیدہ ریاض نے طالب علمی کے زمانے میں پہلی نظم لکھی، جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’فنون‘ میں شایع ہوئی

انہوں نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لندن سے فلم ٹیکنیک میں ڈپلوما بھی حاصل کیا
انہوں نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لندن سے فلم ٹیکنیک میں ڈپلوما بھی حاصل کیا

انہوں نے ترقی پسند فکر کا رسالہ ’آواز‘ جاری کیا تھا۔ ضیا الحق کے دور میں یہ رسالہ حکومتی پابندیوں کا شکار بھی ہوا۔ انہوں نے انڈیا میں کچھ عرصہ خود ساختہ جلاوطنی بھی کاٹی۔ کئی برس کے بعد سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ان کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ وہ کچھ عرصہ نیشنل بک فاؤنڈیشن سے بحیثیت صدر وابستہ رہیں، قائد اعظم اکادمی سے بھی ان کا تعلق رہا اور اردو لغت بورڈ سے بھی منسلک رہیں۔

اب طبع کس پہ کیوں ہوں راغب

انسانوں کو برت چکی ہوں

فہمیدہ ریاض کی پوری زندگی عملی و ادبی جدوجہد سے عبارت ہے۔ ان کا رجحان بائیں بازو کے ترقی پسند حلقے کی طرف تھا اور وہ زمانہ طالب علمی سے ہی سرگرم تھیں۔ سابق جنرل ایوب خان کے دور میں جب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھیں تو انہیں حکومتی جبر بھی سہنا پڑا۔

فہمیدہ ریاض کی پوری زندگی عملی و ادبی جدوجہد سے عبارت ہے
فہمیدہ ریاض کی پوری زندگی عملی و ادبی جدوجہد سے عبارت ہے

ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں بلوچستان حکومت کا تختہ الٹائے جانے پر تخلیقی اظہار کے ذریعے بھرپور مذمت کی۔ سابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی عدلیہ کی بحالی کی تحریک، نواز عمران تصادم سمیت مختلف موضوعات پر باقاعدگی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہیں۔ ان کی معروف لیکن متنازع نظم ’زبانوں کا بوسہ‘ سے اقتباس دیکھیں۔

مجھے ایسا لگتا ہے

تاریکیوں کے

لرزتے ہوئے پل کو

میں پار کرتی چلی جا رہی ہوں

یہ پل ختم ہونے کو ہے

اور اب

اس کے آگے

کہیں روشنی ہے

انگلستان میں قیام کے دوران شعری مجموعہ ’بدن دریدہ‘ شایع ہوا۔ انڈیا میں قیام پذیر تھیں تو ان کے شعری مجموعے ’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘ کی اشاعت ہوئی۔ دیگرتصنیفات میں ’خط مرموز‘، ’گوداوری‘، ’گلابی کبوتر‘، ’دھوپ‘، ’آدمی کی زندگی‘، ’کھلے دریچے سے‘، ’حلقہ میری زنجیر کا‘، ’قافلے پرندوں کے‘، ’یہ خانہ آب و گل‘، ’ہم رکاب‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘، ’میں مٹی کی مورت ہوں‘، ’کراچی، سب لعل و گہر‘، ’مرزا قلیچ بیگ‘ اور ’ہم لوگ‘ شامل ہیں۔

فہمیدہ ریاض اور اروندھتی رائے
فہمیدہ ریاض اور اروندھتی رائے

ان کی شاعری میں نسوانیت کا گہرا رنگ غالب ہے، مرد و عورت کے باہمی تعلق، عورت کا استحصال، معاشرے کی فرسودہ روایات سے بغاوت ان کی شاعری کے نمایاں موضوعات ہیں۔ صوفی شعرا کے تراجم میں انہوں نے بہت کام کیا، جس میں فریدالدین عطار، جلال الدین رومی، شاہ عبدالطیف بھٹائی، شیخ سعدی، فروغ فرخ زاد، شیخ ایاز کی شاعری کے اردو تراجم شامل ہیں۔

فہمیدہ ریاض نے معروف مغربی نفسیات دان ’ایرک فرام‘ کی کتاب ’فیئر آف فریڈم‘ سے ماخوذ کردہ ایک کتاب ’ادھورا آدمی‘ کے نام سے لکھی، جس میں ہماری معاشرتی جھلک ملتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی معاشرے کے ایک حساس موضوع ’ہیرا منڈی‘ کے ترجمے کا کام بھی کیا، وہ کتاب فوزیہ سعید کی تھی جو انگریزی میں شایع ہوئی تھی۔

فہمیدہ ریاض کی شاعری میں نسوانیت کا گہرا رنگ غالب ہے
فہمیدہ ریاض کی شاعری میں نسوانیت کا گہرا رنگ غالب ہے

مصری ناول نگار نجیب محفوظ کے ایک ناول کا ترجمہ بھی ان کے تخلیقی کاموں کی فہرست میں شامل ہے۔ بچوں کے لیے بھی کہانیوں کی ایک کتاب ’پیڑ کی پہیلی‘ شایع ہوئی۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ یہ مختلف ادبی جرائد میں ادبی و تنقیدی مضامین اور کہانیاں بھی باقاعدگی سے لکھتی رہیں۔ 2015ء میں مجھے ان سے مکالمے کا موقع بھی نصیب ہوا تھا۔

کچھ برسوں سے وہ بالکل گوشہ نشین ہوگئی تھیں، کچھ وجہ تو بیماری تھی، لیکن ساتھ ساتھ وہ بدلاؤ بھی تھا، جو ان کے مزاج میں در آیا تھا۔

وہ رفتہ رفتہ ماضی کی طرف لوٹ رہی تھیں، انہیں پرانے دوست، محبوب کتابیں، تاثیر سے بھرے ہوئے یادوں کے کٹورے، خوشی کے موسم، اداسی کی شامیں پھر سے یاد آنے لگی تھیں۔ اس طرح کے احساسات کی وجہ سے انہوں نے خود کو فکشن کی دنیا میں مزید سنجیدگی سے جوڑا، جس کے تحت اپنی زندگی کا آخری ثابت ہونے والا ناول ’قلعۂ فراموشی‘ لکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خود جس لہر کے زیرِ اثر تھیں، اس کے کتھارسز کے طور پر ناول لکھا کیونکہ اس ناول میں بھی قید تنہائی کا تذکرہ ہے اور ان کی زندگی بھی تنہائی کے آئینے میں محو گفتگو تھی۔

قلعہ فراموشی کا سرورق
قلعہ فراموشی کا سرورق

فہمیدہ ریاض کا ناول ’قلعہ فراموشی‘ اپنے موضوع اور متن کے اعتبار سے خاصے کی چیز ہے، اور کسی بھی طرح وہ قرۃ العین حیدر کے ناول ’آگ کا دریا‘ اور جمیلہ ہاشمی کے ناول ’دشتِ سوس‘ سے کم تر نہیں، بلکہ عبداللہ حسین کے ناول ’اُداس نسلیں‘ کے برابر کی تخلیقی کاوش کہی جاسکتی ہے، جس پر فی الحال ادبی حلقوں میں خاموشی ہے، یقینی طور پر مستقبل قریب میں یہ ناول اردو کے بڑے ناولوں میں شمار ہوگا، ممکن ہے فہمیدہ ریاض کا سب سے بڑا حوالہ یہی ناول بنے، اس امکان کو محسوس کرنے کے لیے ناول پڑھنا شرط ہے۔

یہ ناول چوتھی صدی عیسوی کی تاریخ سے متعلق ہے، جس میں مرکزی کردار ’مزدک‘ ہے، جس کو تاریخ کا اولیں سوشلسٹ انقلابی کہا جاتا ہے۔ چوتھی پانچویں صدی عیسوی میں، اسلام آنے سے قبل، عظیم الشان ایرانی اور رومن سلطنتوں کے ٹکراؤ سے گندھی ہوئی کہانی میں ترقی پسندی کے نظریے کو بھی نہایت عمدگی سے سمویا گیا ہے۔ اس کتاب کے پس ورق میں اس ناول کا تعارف کچھ یوں ہے۔

’یہ اس زمانے کی داستان ہے، جب تاریخ، ماقبل تاریخ کے بطن سے تازہ تازہ پیدا ہوئی تھی اور جب مذاہب ارتقائی منازل میں تھے۔ یہ ان شہروں کی کہانی ہے، اب جو وجود نہیں رکھتے اور ان دریاؤں کی، جن کے رخ بدل چکے ہیں۔‘

![کچھ برسوں سے وہ بالکل گوشہ نشین ہوگئی تھیں، کچھ وجہ تو بیماری تھی، لیکن ساتھ ساتھ وہ بدلاؤ بھی تھا، ان کے مزاج میں جو در آیا تھا7

وہ زندگی کے آخری برسوں میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی سے بطور کنسلٹنٹ وابستہ رہیں۔ پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی ایک توانا آواز بنی رہیں، جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔

ان کی علمی و ادبی خدمات کے سلسلے میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز دیا گیا مگر ان کی خود داری کا عالم یہ تھا کہ وہ کبھی کسی کے در پر خود چل کر نہیں گئیں، اپنے ہنر سے دلوں کو فتح کیا، اپنے حصے کے قارئین پیدا کیے، اپنے تخلیقی کام سے اپنا حلقہ پیدا کیا اور ’قلعۂ فراموشی‘ لکھنا، ان کے تخیل کی بلند پروازی تھی، جس کے بارے میں وہ خود بھی نہیں جانتی تھیں۔

پاکستانی سیاست، مذہبی اور لسانی تناظر میں ہونے والے واقعات ان کے دل پر ٹھیس لگاتے رہتے تھے، مگر وہ انہیں سہنے کی عادی تھیں، صرف ایک ٹھیس ایسی تھی، جس کو وہ نہ سہہ سکیں اور اندر سے ڈھے گئیں۔ وہ 2007ء میں جوان بیٹے کی موت کا دکھ تھا، جو نہایت خاموشی سے ان کے اندر سرایت کرگیا۔ زندگی سے رونق، مناظر سے رنگ، رنگوں سے خوشبو اور ظاہری لہجے تاثیر سے عاری محسوس ہونے لگے۔

پاکستانی سیاست، مذہبی اور لسانی تناظر میں ہونے والے واقعات ان کے دل پر ٹھیس لگاتے رہتے تھے
پاکستانی سیاست، مذہبی اور لسانی تناظر میں ہونے والے واقعات ان کے دل پر ٹھیس لگاتے رہتے تھے

وہ بھری دنیا میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگیں، کئی چیزوں میں پناہ لی، لیکن بے مقصد، آخرکار انہیں تھوڑا بہت قرار اپنی بیٹی کے گھر میں ملا، جب وہ اپنے نواسوں سے کھیلنے لگیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ’میں جب ماں تھی، تو ان کو پالنے میں اتنی فرصت نہیں تھی کہ بچوں کے چہرے غور سے دیکھ سکوں، مگر نانی بنی تو نواسوں کی محبت دل پر شدید انداز میں غالب آئی۔ میں نے ان کے چہرے اور ان پر نمودار ہونے والے تاثرات دیکھے، ان کی شرارتوں کو محسوس کیا، یہ ننھے فرشتے مجھے راحت مہیا کرنے لگے‘۔ پھر بھی تنہائی کے موسم میں بتدریج شدت آتی چلی گئی۔

لاہور میں ان دنوں فیض فیسٹیول اختتام پذیر ہونے والا ہے، کراچی میں 11ویں عالمی اردو کانفرنس بھی شروع ہوچکی ہے، لیکن فہمیدہ ریاض نے جس تنہائی کو اپنے ناول قلعہ فراموشی میں قید کیا تھا، وہ خود بھی اس تنہائی کے ساتھ مقید ہوتی چلی گئیں۔ ان کی رحلت کے بعد کچھ دیر کے لیے رسمی تعزیت ہوئی پھر سب اپنے اپنے میلوں ٹھیلوں میں گم ہوگئے، جیسا ان کا جانا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ تازہ منظرنامہ یہی ہے، فہمیدہ ریاض جاچکی ہیں، ادبی میلے جاری ہیں۔

فہمیدہ ریاض کی رحلت کے تناظرمیں ایک 2 باتیں بہت تکلیف دہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کا علاج غلط کیا گیا، جس کی وجہ سے اتنی اہم شخصیت کو شدید علالت سہنا پڑی، دوسرا یہ کہ لاہور میں ان کی نمازِ جنازہ میں معدودے چند ادیبوں کو چھوڑ کر کسی نے شرکت نہ کی، معروف ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق اس بات کے راوی اور شاہد ہیں۔

یہ بھی انتہائی افسوسناک منظرنامہ ہے، زندہ کو پوچھتے نہیں تھے، اب مرنے والوں کو بھی پُرسہ دینا بند کردیا ہے۔ اس کے باوجود ادبی منظرنامے پر فہمیدہ ریاض اور قلعۂ فراموشی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ میرا یقین ہے کہ وہ اپنی آرزؤوں کی اسیر شہزادی تھی۔ ان کی نظموں میں وہ بیان ملتا ہے، جس طرح ان کے مجموعہ کلام ’پتھر کی زبان‘ سے مندرجہ ذیل نظم ہے۔۔۔۔

اسی اکیلے پہاڑ پر تو مجھے ملا تھا

یہی بلندی ہے وصل تیرا

یہی ہے پتھر میری وفا کا

اجاڑ چٹیل اداس ویراں

مگر میں صدیوں سے، اس سے لپٹی کھڑی ہوں

پھٹی ہوئی اوڑھنی میں سانسیں تیری سمیٹے

ہوا کے وحشی بہاؤ پر اڑ رہا ہے دامن

سنبھالا لیتی ہوں پتھروں کو گلے لگا کر

نکیلے پتھر

جو وقت کے ساتھ میرے سینے میں اتنے گہرے ہوگئے ہیں

کہ میرے جیتے لہو سے سب آس پاس رنگین ہوگیا ہے

مگر میں صدیو سے اس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں

اور ایک اونچی اڑان والے پرندے کے ساتھ**

تجھ کو پیغام بھیجتی ہوں

تو آکے دیکھے

تو کتنا خوش ہو

کہ سنگریزے تمام یاقوت بن گئے ہیں

دمک رہے ہیں

گلاب پتھر سے اُگ رہا ہے


تبصرے (0) بند ہیں