پانی کا بڑھتا بحران پاکستانی معیشت کیلئے خطرہ ہے، ورلڈ اکنامک فورم

25 نومبر 2018
پاکستان کونسل  آف ریسرچ ان واٹر سورس نے خبردار کیا ہے کہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے — فائل فوٹو
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر سورس نے خبردار کیا ہے کہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے — فائل فوٹو

ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی رپورٹ میں آئندہ 10 سالوں میں پاکستانی معیشت کے لیے خطرات کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ 3 سو ارب ڈالر کی معیشت مختلف خطرات کا مقابلہ کررہی ہے۔

’ریجنل رسکس فار ڈوئنگ بزنس‘ کے عنوان پر مبنی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود 22 کروڑ کی آبادی پانی کے بحران، بے قابو مہنگائی، دہشت گرد حملوں ،ناکام شہری منصوبہ بندی جیسے خطرات سے دوچار ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جنوری اور جون کے درمیان ’ ایگزیکٹو اوپینین سروے‘ کیے جانے کے بعد مذکورہ خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔

سروے میں خطرات سے متعلقہ سوالات پر جنوبی ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، بھارت، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے ردعمل موصول ہونے کے بعد نتائج ترتیب دیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں : ’پانی کا بحران حل نہیں ہوا تو لوگ ملک سےہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے‘

رپورٹ میں جنوبی ایشیا میں کاروبار سے متعلق 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں حکومت کی ناکامی، بے قابو مہنگائی، بے روزگاری، علاقائی اور عالمی حکومت کی ناکامی، سائبر حملے،بنیادی انفرااسٹرکچر کی ناکامی، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، فنانشل طریقہ کار کی ناکامی ، پانی کا بحران اور وسیع پیمانے پر ازخود ہجرت شامل ہیں۔

قومی حکومت کی ناکامی کو پاکستان ، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور مالدیپ میں سب سے اہم چیلنج قرار دیا گیا تھا۔

جنوبی ایشیا میں انتخابات میں بے چینی کی فضا پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں تشدد اور انتشار کے خطرات درپیش ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ انتخابات کے فوراً بعد کا دورانیہ بھی غیر یقینی صورتحال کی زد میں ہوتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان ، نیپال اور بنگلہ دیش میں سائبر حملوں کے خطرات زیادہ ہیں کیونکہ ان ممالک میں مائیکروسافٹ مصنوعات پر مبنی کمپیوٹر استعمال کیے جاتےہیں جہاں تقریباً روزانہ وائرس حملے ہوتےہیں۔

جنوبی ایشیا کو درپیش سائبر خطرات اس وقت سامنے آئے تھے جب بنگلہ دیش کے بینک پر تاریخ میں سب سے بڑا سائبر حملہ ہوا تھا اور ہیکرز نے ملک کے مرکزی بینک سے 8 کروڑ ڈالر چوری کرلیے تھے۔

اس کے ساتھ ہی بے قابو ہوتی مہنگائی کو جنوبی ایشیا کے لیے دوسرا بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔

2014-2016 میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جنوبی ایشیا کو فائدہ ہوا تھا لیکن توانائی کی بڑھتی ہوئی اور مالیاتی اقدامات کی وجہ سے افراط زر سے متعلق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : پاکستان کس طرح قیمتی پانی ضائع کرتا ہے

رواں برس جولائی میں پاکستان میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے مہنگائی 4 سال میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

رپورٹ میں بے روزگاری اور ملازمت کے کم ہوتے مواقع کو خطے کے لیے تیسرا اہم خطرہ قرار دیا گیا۔

سائبر حملوں کے خطرات کا سامنا کرنے والے 19 ممالک میں سے 14 کا تعلق یورپ اور شمالی امریکا سے تھا جبکہ افریقا کے صحرائی علاقے میں 34 میں سے 22 ممالک ’ بے روزگاری اور ملازمت کے کم مواقع کا سامنا ہے‘۔

جغرافیائی اور سیاسی تحفظات میں سے علاقائی اور عالمی حکومت کی ناکامی اور اور دہشت گرد حملوں کو نویں اور دسویں نمبر پر جگہ دی گئی۔

17 ممالک میں جیوپولیٹیکل خطرات میں ’ بین الریاستی تنازعات‘ کو 3 اہم خطرات میں شامل کیا گیا تھا، ان میں سے اکثر ممالک یورپ اور یوریشیا میں سے تھے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 25 نومبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں