حکومت کے 100روز: تحریک انصاف کی کارکردگی، اپوزیشن کی تنقید

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2018
حکومت کے پہلے 100روز آج مکمل ہورہے—فائل فوٹو
حکومت کے پہلے 100روز آج مکمل ہورہے—فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے 100 روز آج مکمل ہورہے ہیں اور اس عرصے کے دوران حکومت کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت اچھی کارکردگی کا دعویٰ کرتی نظر آئی۔

ان 100 روز میں اقتصادی صورتحال کی بہتری، پارلیمنٹ میں ناراض اپوزیشن، سعودی عرب سے بیل آؤٹ پیکج، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) احتجاج، یو ٹرن، دوبارہ ابھرتی دہشت گردی، بھارت سے امن کی کوشش اور سب سے بڑھ کر سادگی مہم حکومت کی اہم خصوصیات تھیں۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں ایک جانب حکومتی جماعت اپنی 100 روزہ کارکردی کو ’قابل ذکر کامیابیاں‘ کہتے ہوئے دعویٰ کررہی ہے کہ ملک صحیح سمت پر چل پڑا ہے تو وہیں اپوزیشن جماعتیں حکومت کی 100 روز کی کارکردگی کو ’غیر متاثر کن، مضحکہ خیز اور مکمل جھوٹ اور یو ٹرن‘ قرار دے رہی ہیں۔

واضح رہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کا پر عزم ’ایجنڈ‘ پیش کیا تھا، جس میں حکومت آنے کی صورت میں پہلے 100 روز میں پارٹی کی جانب سے شروع کیے جانے والے کام پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 روز میں عوام کیلئے ریلیف نہیں

اس ایجنڈے کی نمایاں خصوصیات میں وفاق کے زیر انتظام قبائی علاقوں کا خیبرپختونخوا سے جلد انضمام، پنجاب کی 2 حصوں میں تقسیم اور علیحدگی پسند بلوچ رہنماؤں سے مصالحت شامل تھی۔

اس کے علاوہ 100 روزہ ایجنڈے میں کراچی کے لیے ترقیاتی پیکج کا آغاز اور غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات بھی شامل تھے۔

تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسی کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے اسد عمر جو اس وقت وزیر خزانہ ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت ایک کروڑ ملازمتیں دینے، مینوفکچرنگ بحال کرنے، تیزی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری شعبے میں اضافہ، 50 لاکھ مکانات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے کا تعاون، ٹیکس اصلاحات اور ریاستی اداروں کی بحالی کا کام کرے گی۔

تاہم انتخابات کے بعد وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ایک رسمی پریس کانفرنس میں اسد عمر نے کہا تھا کہ پہلے 100 دن میں عوام کو کسی ریلیف یا سبسڈی کی پیشکش کرنا لولی پوپس دینے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پہلے 100 روز میں ملک کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ’جو ہم نے وعدہ کیا تھا اس کے لیے ایک واضح سمت مل جائے گی'۔

تاہم اپوزیشن یہ الزام لگاتی ہے کہ حکومت تقریباً تمام معاملات، خاص طور پر معیشت اور امن و امان کی صورتحال میں کامیابی دکھانے میں مکمل ناکام ہوگئی۔

اپوزیشن کے مطابق حکومت نے اپنا ہوم ورک صحیح طریقے سے نہیں کیا۔

پارلیمنٹ کی صورتحال

قومی اسمبلی کی کمیٹیاں بنانے میں تاخیر نے پارلیمان کو تقریباً غیر فعال کردیا اور اسپیکر اسمبلی اسد قیصر جو ایوان کو بہتر انداز میں چلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، انہیں سب سے طاقتور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی چیئرمین شپ کے معاملے پر تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں میں جاری رسہ کشی کے باعث ایک مشکل صوتحال کا سامنا ہے۔

اسد قیصر نے پارلیمانی کمیٹیوں کے قیام کا عمل روک دیا ہے کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر پارلیمانی روایت کے تحت پی اے سی کی چیئرمین شپ اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو نہیں دی گئی تو وہ بائیکاٹ کردے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کے پہلے 100 دن: تحریک انصاف کا 6 نکاتی ایجنڈے کا اعلان

دوسری جانب حکومت کی جانب سے لیے گئے یوٹرن پر اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کو یہ یاد دہانی کرائی کہ کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پہلے 3 ماہ میں وزیر اعظم کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے اور وہ صرف کمرشل فلائٹس میں سفر کریں گے لیکن اس عرصے کے دوران وہ سعودی عرب، چین، یو اے ای اور ملائیشیا کے دورے پر گئے اور خصوصی طیارہ استعمال کیا۔

اپوزیشن کے مطابق وزیر اعظم نے سعودی عرب، چین اور یو اے ای کے سامنے بھیک کا پیالہ پھیلا کر غیر ملکی قرض نہ لینے کے وعدے سے بھی یوٹرن لیا۔

تبصرے (0) بند ہیں