کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے مبینہ طور پر ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کی ضمانت منظور کرلی۔

عدالت نے روزنامہ ’نئی بات‘ سے وابستہ سینئر صحافی کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں سینئر صحافی کی وکیل فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف بدنیتی پر مبنی مقدمہ درج کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: گمشدہ صحافی عدالت میں پیش، ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام

انہوں نے کہا کہ نصراللہ چوہدری پر انتہائی بھونڈا الزام عائد کیا گیا اور اس الزام کے دفاع میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ڈی ڈی) کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے سینئر صحافی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ 8 نومبر کو سادہ لباس مسلح افراد کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے تھے اور صحافیوں کی جانب سے انہیں ہراساں کیے جانے کی شکایت کی گئی تھی۔

صحافیوں نے کہا تھا کہ مسلح افراد نے پریس کلب کے مختلف کمروں، کچن، عمارت کی بالائی منزلوں اور اسپورٹس ہال کا جائزہ لیا تھا جبکہ انہوں نے جبری طور پر ویڈیوز بھی بنائیں اور موبائل کیمرے سے تصویریں بھی لی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: اداریہ: صحافی کی بغیر ثبوت گرفتاری غیر منصفانہ ہے

اس واقعے کے اگلے روز صحافیوں کی جانب سے گورنر ہاؤس پر احتجاج کیا گیا تھا جبکہ 10 اور 11 نومبر کی درمیانی شب نصراللہ چوہدری لاپتہ ہوگئے تھے۔

صحافتی تنظیموں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ سینئر صحافی نصر اللہ خان چوہدری کے گھر پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور انہیں مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے۔

بعد ازاں 12 نومبر کو سی ڈی ٹی نے نصراللہ چوہدری کو عدالت میں پیش کیا تھا اور ان پر مبینہ طور پر ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں