اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیر اعظم عمران خان کے صحافیوں کو انٹرویو پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیر اعظم کے انٹرویو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'اپوزیشن کو حکومت گرانے کے لیے اقدامات کی ضرورت نہیں، عمران خان کی ٹیم اور ان کی کارکردگی ہی حکومت گرانے کے لیے کافی ہے جبکہ حکومت چلانا عمران خان اور ان کی ٹیم کے بس کی بات نہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'قبل از وقت انتخابات کے بیان کے بعد عمران خان کو اپنی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔'

وزیر اعظم کی 'این آر او' سے متعلق بات پر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 'عمران خان نے نااہلی چھپانے کے لیے این آر او کی بات دہرائی، انہوں نے علیمہ خانم کو این آر او دیا اور علیمہ خانم کی منی لانڈرنگ کے پیچھے عمران خان ہیں، جبکہ شہباز شریف این آر او مانگنے والے کا نام بتانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔'

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی 100روزہ کارکردگی سے متعلق'وائٹ پیپر' جاری کردیا

دوبارہ انتخابات کرانے کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، پیپلز پارٹی

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے قبل از وقت انتخابات کے عندیے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا حکومتی مدت پوری کرنے کی بجائے دوبارہ انتخابات کرانے کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

ترجمان بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'وزیر اعظم کے کمزور فیصلوں سے ملکی معیشت پہلے ہی تباہ حال ہے، انتخابات کرانے کا بیان ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنے کے مترادف ہے اور سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔'

انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ڈلیور کرنے کی کوشش تک نہیں کر رہی، اب وزیراعظم کو ان کی اپنی جماعت کے کوئی سنجیدہ رہنما ہی سمجھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اپوزیشن آخری حد تک کوشش کرے گی کہ وزیراعظم ملک کو سیاسی عدم استحکام کی جانب نہ لے کر جائیں، لیکن اگر انہوں نے ایسی کوئی کوشش کی تو یہ صریحاً ملک دشمنی ہو گی اور ہم مایوس حکومت کو اپنی ناکامیوں کی وجہ سے ملک سے کھلواڑ کرنے نہیں دیں گے۔'

یہ بھی پڑھیں: عمران خان زیادہ دن ملک سنبھال نہیں سکیں گے، آصف زرداری

واضح رہے کہ انٹرویو کے دوران وزیر اعظم عمران خان کا جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سےکہنا تھا کہ 'یہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا، یہ ضروری ہے کیونکہ رحیم یار خان اور دور دراز علاقوں سے لاہور آنا پڑتا ہے جبکہ ماضی میں ترقیاتی کاموں کو صحیح ترتیب نہیں دیا گیا۔'

صوبہ بنانے کی صورت میں وسطی پنجاب میں اکثریت ختم ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'یہ تو دیکھا جائے گا ہوسکتا ہے پہلے ہی الیکشن ہوجائیں، ایک کپتان حکمت عملی ہر وقت بدل سکتا ہے ایک دم وسیم اکرم کو کسی وقت بھی لاسکتا ہے اور یہ عثمان بزدار زبردست ہے اور یہ وسیم اکرم پلس نکل رہا ہے'۔

حکومت کے لیے جماعتوں سے اتحاد پر انہوں نے کہا کہ 'میں نے یوٹرن کو عقل مندی کہا ہے کیونکہ کوئی بھی رہنما اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کرے گا اور جب تک میں جو پالیسی بنارہا ہوں اس پر کوئی اتحادی رکاوٹ نہ بنے اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اتحاد نہیں کرنا ہے کیونکہ ان سے اتحاد کا مطلب تھا کہ کرپشن کے خلاف اپنے مقاصد پر سمجھوتا کیا جائے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں