کرکٹ تاریخ میں پہلا ٹی 20 انٹرنیشنل فروری 2005ء میں کھیلا گیا تھا اور کئی سالوں تک کرکٹ کے روایتی حلقے اِس نئے فارمیٹ کی اہمیت سے انکاری رہے یہاں تک کہ 2009ء میں اس وقت کے پاکستانی کپتان یونس خان نے یہ تک کہہ دیا کہ ٹی 20 تو محض شغل ہے۔

اس سے پہلے کہ اس بیان پر بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہوتا، پاکستان نے یونس خان کی قیادت میں ہی ورلڈ ٹی 20 جیت لیا۔ یعنی پاکستان تفریح تفریح میں ہی ورلڈ چیمپیئن بن گیا اور یونس خان نے اس فارمیٹ کو شایانِ شان انداز میں الوداع بھی کہہ دیا۔

ہوسکتا ہے آج سے 9 سال پہلے یہ کہنا کسی حد تک درست ہو لیکن اب ناممکن کیونکہ اب تو ٹی 20 کرکٹ کا اہم ترین فارمیٹ بن چکا ہے جس میں تمام ممالک سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ 20 اوورز فی اننگز کا یہ کھیل صدیوں سے قائم ٹیسٹ اور دہائیوں سے رائج ون ڈے کی مقبولیت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہے لیکن لگتا ہے ٹی 20 کے عروج کا زمانہ بہت مختصر ہوگا۔ کیونکہ حالیہ کچھ عرصے میں کم از کم 2 ایسے نئے پہلو سامنے آئے ہیں جو ٹی 20 کی مقبولیت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ ایک، متحدہ عرب امارات میں ٹی 10 لیگ کے دوسرے سیزن کا شاندار انعقاد اور دوسرا انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کی جانب سے 100 گیندوں کی کرکٹ کا اعلان!

جہاں شاہد آفریدی، کرس گیل، ایون مورگن، کیرون پولارڈ، ڈیوین براوو، شین واٹسن، ڈیرن سیمی، برینڈن میک کولم اور سنیل نرائن جیسے اسٹارز تو ایکشن میں دکھائی دیں گے ہی، بلکہ ممکنہ طور پر انگلینڈ سے لے کر سری لنکا اور بھارت سے لے کر آسٹریلیا تک کے کھلاڑیوں کی ایک فوج ظفر موج بھی موجود ہو۔ لہٰذا اس لیگ کو سنجیدہ تو لینا ہی پڑے گا۔

گوکہ ٹی 10 لیگ اب تک شائقین کو اس طرح گرفت میں نہیں لے پائی جیسا کہ پاکستان سپر لیگ نے لیا ہے، لیکن پھر بھی صرف 12 روز جاری رہنے والی لیگ کے حوالے سے اس بار کافی باتیں ہوئی ہیں بلکہ کچھ لوگوں نے تو 10 اوورز کی کرکٹ کو مستقبل کی جانب پیش قدمی بھی قرار دیا ہے۔

ٹی 10 لیگ متحدہ عرب امارات کرکٹ بورڈ کی کاوش ہے، جس کا ہدف ملک میں کرکٹ کا فروغ اور اماراتی کرکٹ کو بین الاقوامی منظرنامے پر لانا ہے۔ یہ اہداف حاصل کرنا آسان بالکل نہیں، التبہ ٹی 10 نے باقی دنیا کو ایک نئی راہ ضرور دکھائی ہے کہ کرکٹ کو اولمپکس تک لے جانے کے لیے یہ 10 اوورز کا فارمیٹ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ خیال پاکستان کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے پیش کیا ہے کہ جن کے خیال میں اولمپکس کے لیے یہ فارمیٹ سب سے زیادہ موزوں ہے جبکہ انگلش کپتان ایون مورگن بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں ٹی20 فارمیٹ کچھ طویل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اولمپکس کے محدود دورانیے کے حساب سے ٹی 10 کھیلنا آسان ہوگا۔ اولمپکس میں 10 اوورز کے کرکٹ مقابلوں پر مشتمل ٹورنامنٹ محض 8، 10 دن میں مکمل ہوسکتا ہے۔

یاد رہے کہ تاریخ میں صرف ایک بار کرکٹ کو اولمپکس میں کھیلا گیا ہے، لیکن یہ بات بھی زمانہ قبل از تاریخ کی ہے، معذرت 1900ء کی کہ جب دوسرے جدید اولمپکس کھیلوں میں کرکٹ کو شامل کیا گیا تھا یعنی 118 سال پہلے۔

لالا کے بیان کو ہضم کرنا آسان نہیں، بالکل ویسے جیسے کبھی ٹی 20 برداشت نہیں ہو رہا تھا، لیکن بات صرف یہیں تک محدود نہیں، بلکہ رواں سال انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کی جانب سے 100 گیندوں کی کرکٹ کے اعلان کے بعد سے تو لگتا ہے کہ معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے انگلینڈ دنیا کا سب سے قدامت پسند ترین ملک ہے اور ٹیسٹ مقابلوں میں بھرے ہوئے میدان دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہاں کے کرکٹ کرتا دھرتا ٹی 20 سے بھی چھوٹے فارمیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں تو دوسروں کا کیا حال ہوگا؟ بہرحال، یہ دلچسپ فارمیٹ 6 گیندوں کے 15 روایتی اوورز اور ایک 10 گیندوں کے اوور کے ساتھ 100 گیندوں کی اننگز پر مشتمل ہوگا اور مقابلہ ختم ہوگا 3 گھنٹے کے اندر اندر۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھانت بھانت کی لیگز کے بعد اب نت نئے فارمیٹس سے کرکٹ کو خطرہ ہے؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ کے چاہنے والوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور اس کا اندازہ طویل فارمیٹ کے مقابلے دیکھنے کے لیے میدان میں آنے والے شائقین کی تعداد سے ہو رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں جاری پاک-نیوزی لینڈ سیریز کو ہی لے لیں کہ جہاں کھلاڑی اپنے کیریئر کی یادگار ترین کارکردگی دکھا رہے ہیں اور میدان میں کوئی انہیں داد دینے والا تک موجود نہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک چیز تو طے ہے کہ کرکٹ کے قدیم ترین اور اصل فارمیٹ کی حیثیت سے ٹیسٹ کو جو مقام حاصل ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوسکے ہوگا۔ اس صورت حال میں اصل خطرہ ون ڈے کرکٹ کو لاحق ہے، وہی فارمیٹ جس میں کرکٹ کا سب سے بڑا اعزاز ورلڈ کپ دیا جاتا ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا عرصہ دراز سے کہنا ہے کہ وہ ہر فارمیٹ میں صرف ایک بڑا اعزاز دینا چاہتی ہے، یعنی ون ڈے میں ورلڈ کپ کے سوا کوئی ٹورنامنٹ نہیں کروانا چاہتی، چیمپیئنز ٹرافی بھی نہیں۔ اس کی جگہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا اضافہ کرنا مقصود ہے لیکن 2017ء میں براڈ کاسٹرز کے مطالبے پر چیمپیئنز ٹرافی کروانی پڑی کیونکہ وہ پورے دن پر مشتمل میچز میں خوب اشتہار دکھاتے اور پیسے کماتے ہیں۔

اب عالم یہ ہے کہ کرکٹ کے کرتا دھرتا مختصر سے مختصر ترین کرکٹ کی جانب جانا چاہ رہے ہیں اور براڈکاسٹرز طویل دورانیے کی کرکٹ کے حق میں ہیں۔ اس رسہ کشی میں کون سا فارمیٹ زندہ بچے گا اور کون سا بھینٹ چڑھ جائے گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں