اسلام آباد: پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ کرلیا جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی۔

عدالتِ عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے ماڈل ٹاؤن کیس میں نئی جے آئی ٹی بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ حکومت ماڈل ٹاؤن سانحے کی ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے جارہی ہے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت نے واضح فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور صوبائی حکومت کے فیصلے سے درخواست گزار کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ’کیا ماڈل ٹاؤن سانحے میں دوسری جے آئی ٹی بنائی جاسکتی ہے؟‘

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت نے کہا کہ انسداد دہشتگردی قانون کی شق 19 کے تحت نئی جے آئی ٹی بنائیں گے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ماڈل ٹاؤن سانحے کی ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے سے متعلق دائر درخواست کو نمٹا دیا۔

سماعت کے دوران پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ خود اس پر دلائل دیں گے جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں خود دلائل دوں گا۔

چیف جسٹس میں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے لیے کوئی مقدمہ سیاسی نہیں ہوتا، اور کوئی بھی ہمیں دباؤ میں نہیں لاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا نوٹس

طاہر القادری نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے روز 10 افراد جاں بحق اور 71 زخمی ہوئے تھے، دوبارہ ٹرائل صفر کی سطح پر آگیا، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی تشکیل سے مظلوموں کو انصاف کی امید ہوئی۔

انہوں نے عدالت میں مزید کہا کہ ملزمان کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چل رہا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کس ایف آئی آر پر بنی، جس پر طاہر القادری نے کہا کہ پہلے پولیس نے اپنی ایف آئی آر پر جےاائی ٹی بنائی تھی، بعد میں ہماری ایف آر پر پولیس نے جے آئی ٹی بنائی۔

طاہر القادری نے کہا کہ لوگوں کو میرے دروازے پر گولیاں ماری گئیں، ہم کیا فلسطینی ہیں جو ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہوا؟ واقعہ سے پہلے کے حالات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

پی اے ٹی کے سربراہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ 4 سال سے مظلوموں کے سر پر ہاتھ رکھ رہا ہوں، اور انہیں امید دلاتا ہوں کہ انصاف ملے گا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری

وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے نئی جے آئی ٹی کے قیام کی حمایت کردی، اور نئی جے آئی ٹی پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کو اعتراض نہیں ہے تو جا کر اپنا کام کریں۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ حکومت نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا جس پر عدالت نے درخواست کو نمٹا دیا۔

درخواست گزار اور واقعے میں ہلاک ہونے والی تنزیلہ کی بیٹی بسمہ بھی عدالت میں پیش ہوئی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

درخواست گزار بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی اور واقعے کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔

عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

تاہم بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں