اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بیرونِ ملک جائیدادوں کے کیس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

قبلِ ازیں عدالت نے دیے گئے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین ایف بی آر اور رکنِ انکم ٹیکس کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں کے کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’وزیر اعظم کی ہمشیرہ نے دبئی فلیٹ پر ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا‘

سماعت میں چیئرمین ایف بی آر بھی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ اپنی اب تک کی کارکردگی بتائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یکم نومبر کو ہم نے تحقیقات کر کے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا، ہم نے 20 لوگوں کی تحقیقات کر کے رپورٹ جمع کرانے کا کہا تھا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اس لیے بنائی کہ جلد تحقیقات مکمل ہوں لیکن ایف بی آر تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے، ڈیڑھ ماہ گزر گیا مگر ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔

جس پر چیئرمین ایف بی آر نے عدالت میں کہا کہ ہم نے ابتدائی معلومات لی تھیں اب تحقیقات فیلڈ افسران نے کرنی ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے( ایف آئی اے) نے آپکو تحقیق کر کے دی مگر آپ نے اسے سرد خانے میں ڈال دیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خانم کا ٹیکس ریکارڈ طلب

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ علیمہ خان کی تفصیلات کہاں ہیں؟ جس پر رکن ایف بی آر نے جواب دیا کہ ان کی معلومات لاہور میں ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اسی کام کے لیے آپ کو لاہور بھیجا تھا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ لوگوں نے ہزاروں جائیدادیں باہر بنا لیں، ایف بی آر کی ہمدردی انہی لوگوں کے ساتھ ہے، علیمہ خانم کی تفصیلات ابھی تک نہیں ملی، منگل 11 دسمبرتک ہمیں تفصیل چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ممبر ان لینڈ ریونیو حبیب اللہ کو معطل کر رہے ہیں جس پر انہوں نے عدالت سے رحم کی اپیل کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے معطلی کا حکم واپس لے لیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: بیرونِ ملک جائیدادوں کے 13مالکان ریکارڈ کے ساتھ طلب

بعدازاں عدالت نے ایف بی آر سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے پاکستانیوں کے بیرون ملک بینک اکاونٹس اور جائیدادوں سے متعلق ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دبئی میں 2 سو 20 مزید جائیدادوں کا سراغ لگایا گیا، مجموعی طور پر ایک ہزار ایک سو 15 پاکستانیوں کی 2 ہزار 29 جائیدادیں دبئی میں موجود ہیں۔

اس میں مزید بتایا گیا تھا کہ ایک ہزار ایک سو 15 پاکستانیوں میں سے 7 سو 57 پاکستانیوں نے بیان حلفی جمع کرائے ہیں، بیان حلفی جمع کرانے والوں میں 2 سو 23 پنجاب، 4 سو 44 سندھ اور 74 اسلام آباد، بلوچستان سے 4 اور خیبرپختونخوا سے 12 افراد ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا بیرون ملک جائیداد رکھنے والے 20 لوگوں کو پیش کرنے کا حکم

25 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے بیرونِ ملک جائیدادیں رکھنے والے 20 پاکستانیوں کو طلب کیا تھا۔

جس کے بعد یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے بیرون ممالک میں جائیدادیں رکھنے والے 13 افراد کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا تھا۔

اس کیس کی 30 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خانم کا بھی ٹیکس کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران ایف بی آر کے ٹیکس ممبر نے عدالت کو بتایا تھا کہ علیمہ خانم نے ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن ٹیکس ریکارڈ کی معلومات نہیں دے سکتے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے آپ ہمیں سربمہر لفافے میں معلومات دیں، دیکھ لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ، دبئی میں جائیداد بنانے والے 15 سو پاکستانیوں کو نوٹس بھیجنے کا فیصلہ

تاہم یکم دسمبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ میں لاہور کے کمشنر اِن لینڈ سروس (آئی آر ایس) ڈاکٹر اشتیاق احمد خان نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خانم نے دبئی کے فلیٹ پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

کمشنر اِن لینڈ نے عدالت کو بتایا کہ فلیٹ ظاہر نہ کرنے پر علیمہ خانم کو فروری 2018 میں نوٹس دیا گیا تھا۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ علیمہ خانم کے خلاف کارروائی کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، اور سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں