امریکا کے 6 اعلیٰ سینیٹرز نے اپنی پارٹی کے موقف سے انحراف کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے کے لیے ایک سخت قرار داد پیش کردی۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس قرارداد میں کہا گیا کہ سینیٹ کو اس بات پر ’پختہ یقین‘ ہے کہ اس قتل میں محمد بن سلمان شریک تھے۔

واضح رہے کہ اگر یہ قرارداد سینیٹ سے منظور ہوجاتی ہے تو جمال خاشقجی کے قتل کے لیے باضابطہ طور پر محمد بن سلمان کی مذمت کی جائے گی۔

اس حوالے سے ریپبلکن سینیٹر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اتحادی لِنڈسے گراہم نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی سینیٹز کی جانب سے پیش کی گئی اس غیر مبہم قرار داد میں واضح طور پر کہا گیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کے پیچھے تھے اور انہوں نے ہماری قومی سلامتی کو مختلف مواقع پر خطرے میں ڈالا‘۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کی ’تکلیف دہ‘ آڈیو نہیں سننا چاہتا، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی سینیٹرز کی جانب سے یہ اقدام استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کی جانب سے جمال خاشقجی کی قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی اور سعودی ریاست کی خارجہ انٹیلی جنس کے نائب سربراہ وارنٹ گرفتاری فائل کرنے کے بعد سامنے آیا۔

یاد رہے کہ سعودی عرب نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس قتل کی کوئی ابتدائی معلومات نہیں تھیں، تاہم ابتدائی طور پر متضاد وضاحتوں کے بعد ریاض نے بالاخر یہ تسلیم کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو اسنتنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل امریکی سینٹرز نے سینٹرل انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی ڈائریکٹر جینا ہسپیل کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات پر بریفنگ کے بعد کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس میں براہ راست ملوث ہیں۔

سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین باب کورکر نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ اگر سعودی ولی عہد کا ٹرائل کیا جائے تو جیوری انہیں ‘صرف 30 منٹ میں’ مجرم ثابت کرے گی۔

جمال خاشقجی کا قتل؟

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر ہوا‘

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

علاوہ ازیں گزشتہ ماہ امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا ٍکہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں