اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو جیکب آباد کے 648 ترقیاتی منصوبوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ کے ضلع جیکب آباد میں ترقیاتی منصوبوں میں خردبرد کے معاملے کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون تھے وہ وزیر اور وہ کہاں ہیں۔

وکیل نے جواب دیا کہ اعجاز جاکھرانی عدالت میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے نیب وکیل سے استفسار کیا کہ نیب کی انکوائری کے مطابق منصوبے کے لیے کتنا پیسہ آیا تھا، اعجاز جاکھرانی کتنا پیسہ کھا گئے ہیں۔

نیب وکیل نے جواب دیا کہ ان کے پاس 176 ایکڑ زرعی زمین ہے، کُل 648 اسکیمیں تھیں جو کاغذات پر تو موجود ہیں مگر زمین پر کچھ نہیں، جبکہ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کی رپورٹ کے مطابق 23 اسکولوں کی عمارت ہی موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: 1600 ترقیاتی منصوبوں میں ’سیاسی وابستگی‘ کی تحقیقات کا حکم

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ڈی سی جیکب آباد کی رپورٹ پر اعتراض کیا تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں ہم نے بہت برے حالات دیکھے، کاغذات میں تو اسکیمیں مکمل ہیں لیکن دورہ کیا تو وہاں کچھ نہیں تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ڈی سی کے ساتھ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) کو بھی تخمینہ لگانے کا کہا جائے، چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ اپنی نشست پر تشریف رکھیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے عدالت میں سندھ کے ایک زیر تعمیر اسکول کی تصویر اٹھا کر لہراتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے کام کا یہ معیار ہے، یہ بدترین قسم کی کرپشن ہے۔

عدالت نے نیب کو جیکب آباد کے 648 ترقیاتی منصوبوں کی تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نیب 648 ترقیاتی منصوبوں کی 3 ماہ میں تحقیقات کرکے ذمہ داران کا تعین کرے اور ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔

عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Dec 06, 2018 08:47pm
یہ ہی صورتحال کراچی کے ضلع غربی کی بھی ہے (کراچی ڈسٹرکٹ ویسٹ Karachi District West) پورے ضلع کا برا حال ہے۔ پورے ضلع میں کوئی ایک معیاری منصوبہ موجود نہیں۔ ضلع کی کسی سڑک، اسکول، اسپتال ، واٹر ٹینک یا مفاد عامہ کے ادارے کے بارے میں آپ بہتریہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ضلع غربی میں کیماڑی، بلدیہ، سائٹ، شیرشاہ، قصبہ کالونی، اورنگی، ماڑی پور ، ہاکس بے سمیت درجنوں علاقے شامل ہیں مگر صورتحال ایک جیسی ہی ہے۔ اگر سندھ حکومت کی جانب سے ہاکس بے جانے والی سڑک پر لگائے جانے والی سولر اسٹریٹ کو ہی دیکھ لیا جائے تو کافی ہے۔ (سیپرا SEPRA کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے) 10 لاکھ روپے سے چند ہزار کم کے ہزاروں منصوبے کاغذات میں مکمل مگر زمین پر ان کا نام و نشان بھی نہیں۔ آسانی کے لیے بغیر کسی ترتیب کے (randomly) صرف 10 منصوبے منتخب کرکے ان کی تحقیقات کی جائے تو صورتحال آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔