اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حماس کے خلاف امریکی قرارداد مسترد

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2018
امریکی مندوب کی عہدے سے سبکدوشی سے قبل پیش کردہ یہ آخری قرارداد تھی—فوٹو بشکریہ یو این
امریکی مندوب کی عہدے سے سبکدوشی سے قبل پیش کردہ یہ آخری قرارداد تھی—فوٹو بشکریہ یو این

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکا کی جانب سے حماس کے خلاف پیش کردہ قرار داد مسترد کردی گئی، جو 2007 سے غزہ کی پٹی میں حکومت کررہی ہے۔

اس قرارداد کو اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل تھی تاہم اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری میں اسے 2 تہائی ووٹ حاصل نہیں ہوسکے۔

جنرل اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں حماس کے خلاف امریکی قرارداد کے حق میں 87 ممالک نے حمایت میں جبکہ 57 نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 33 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

یہ بھی پڑھیں: حماس کا فلسطین کی 1967 کی سرحدوں کو تسلیم کرنے کا اعلان

مذکورہ قرار داد اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے پیش کی تھی جو ان کی اپنے عہدے سے سبکدوشی سے قبل عالمی ادارے میں آخری کارروائی تھی۔

سبکدوشی کی منتظر امریکی سفیر اسرائیل کی بہت زیادہ حمایت کرنے والی عہدیدار سمجھی جاتی تھیں، جنہوں نے گزشتہ روز اراکین کو امریکی مسودے کے حق میں ووٹ دینے کے لیے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی تھی کہ امریکا اس ووٹ کے نتائج کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھے گا۔

اجلاس میں امریکی قرارداد مسترد ہونے کے بعد حماس نے باضابطہ طور پر بیان جاری کر کے اقوامِ متحدہ کے ان اراکین کا شکریہ ادا کیا’ جنہوں نے فلسطینی عوام کی مزاحمت اور مقصد کے لیے حمایت کی‘۔

مزید پڑھیں: فلسطین کا اسرائیل پر سرحدی حملوں میں فوج کے بے جا استعمال کا الزام

حماس کی جانب سے جاری بیان میں امریکی سفیر نکی ہیلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنی انتہا پسندی اور فلسطین میں صیہونی دہشت گردی کی حمایت کرتی ہیں۔

حماس کے ترجمان سمیع ابو زاہری نے ووٹ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’طمانچہ‘ قرار دیا جو مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر اسرائیل کی حامی ہیں۔

دنیا افغان مسئلے کے حل کو تسلیم کررہی ہے، ملیحہ لودھی

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھی خطاب کیا، جن کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان مسئلے کا حل سفارتی سطح پر چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا گزشتہ 2 دہائیوں سے وزیراعظم عمران خان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ افغانستان میں جاری جنگ کا خاتمہ صرف مذاکرات سے بھی ممکن ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اب دنیا نے بھی اس بات کو سمجھ لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘افغانستان امریکی فوجیوں کیلئے قبرستان بن گیا‘

پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ یہ بات اب بہت اچھی طرح ظاہر ہوچکی ہے کہ نہ تو اتحادی افواج اور نہ ہی طالبان ایک دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کرسکتے ہیں، افغانستان میں حل کے لیے اور تنازعے کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے سیاسی حل، واحد راستہ ہے جس کے ذریعے تشدد کا خاتمہ اور قیامِ امن ممکن ہے۔

اپنے خطاب میں افغان مسئلے کے حل کی جانب اٹھنے والی مثبت پش رفت کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی اور نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی جانب سے کی گئی کوششیں بہت مثبت ہیں اور ہم افغان حکومت کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی ٹیم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ملیحہ لودھی نے امریکی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں تیسرا مثبت قدم امریکا کا سیاسی حل کی جانب قدم بڑھانا اور طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا عمران خان کو خط، افغان طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی درخواست

ملیحہ لودھی نے امریکی صدر کے خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان مسئلے کے حل کے لیے تعاون کی درخواست کی جس کے ردِعمل میں وزیراعظم عمران خان نے مثبت جواب دیتے ہوئے ہر ممکن حمایت کا یقین دلایا۔

انہوں نے کہا کہ افغان عوام اس طویل جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اپنے ملک میں امن کے خواہشمند ہیں جبکہ عید الفطر میں کیا جانے والا سیز فائر اور افغان انتخابات امن مارچ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عوام امن کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں