میانمار سے ہزاروں مجبورخواتین کو جبری شادی کیلئے چین بھیجا گیا، تحقیق

07 دسمبر 2018
متاثرہ خواتین کی اکثریت میانمار کی شمالی ریاست شان اور کوچن سے ہے—فوٹو:اے ایف پی
متاثرہ خواتین کی اکثریت میانمار کی شمالی ریاست شان اور کوچن سے ہے—فوٹو:اے ایف پی

میانمار میں مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی ظلم و جبر کے واقعات کے بعد شمالی ریاستوں سے ہزاروں مجبور خواتین کو جبری شادی کے لیے چین اسمگل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ادارے جونز ہوپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی جانب سے اپنے طرز کی پہلی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنگ زدہ علاقے کیچن اور شمالی ریاست شان سے ایک اندازے کے مطابق 7 ہزار 500 خواتین کو جبری شادی کے لیے چین بھیج دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ چین میں دہائیوں سے ایک بچہ پالیسی کے نتیجے میں مردوں کے مقابلے میں 3 کروڑ 30 لاکھ خواتین کم ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس خلا کو پر کرنے کے لیے کمبوڈیا، لاؤس، میانمار اور ویت نام سے ہزاروں غریب خواتین کو سالانہ دلہنوں کے طور پر بیچا گیا جن میں سے چند اپنی مرضی سے گئیں جبکہ دیگر یا تو دھوکا دے کر یا پھر اسمگلنگ کے ذریعے چین پہنچا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:میانمار میں روہنگیا نسل کشی اب بھی جاری ہے، اقوام متحدہ

میانمار واپس آنے والے، اس طرح کے واقعات سے بچنے والے کئی افراد اور چین میں موجود دیگر افراد سے انٹرویو کی بنیاد پر ترتیب دی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اسمگل کی گئی اکثر خواتین کو اپنے شوہروں کے لیے ایک بچہ لانے پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مصنف ڈبلیو کورٹ لینڈ رابنسن کا کہنا تھا کہ میانمار سے خواتین اس لیے جارہی ہیں کیونکہ وہاں پر ‘تنازعات، بے گھر اور غریبی’ جیسے مسائل کا سامنا ہے جبکہ ‘چین میں بالخصوص مضافاتی علاقوں میں مرد اور خواتین کی تعداد میں عدم برابری کے نتیجے میں مردوں کو ایک بیوی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے’۔

میانمار کی ریاست شان اور کیچن میں فیلڈ ریسرچ کرنے والی کیچن ویمنز ایسوسی ایشن کی سربراہ مون نائے لی کا کہنا تھا کہ محققین کو ایک خاتون نے بتایا کہ انہیں تین مرتبہ چین اسمگل کیا گیا اور تینوں مرتبہ ‘بچے کی پیدائش کے لیے دباؤ ڈالا گیا’۔

مزید پڑھیں:’روہنگیا مسلمان، میانمار میں واپسی سے خوفزدہ‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘سیاسی عدم استحکام، تنازع اور زمینوں کو ہتھیانے کے باعث خواتین کی سلامتی ایک بڑا امتحان ہے’۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں عام طور پر شادیاں باہمی رضامندی، خاندانوں کی خواتین کی کوششوں اور گاؤں کے بزرگوں کے فیصلوں سے ہوتی ہیں جس سے انکار دلہا اور دولہن کے لیے ممکن نہیں۔

تحقیق کے مطابق کم عمر خاتون کی قیمت سب سے زیادہ لگائی جاتی ہے جو 10 ہزار ڈالر سے 15 ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔

دوسری چین میں ان خواتین کے لیے چنے گئے مرد دور دراز علاقوں میں روایتی طور پر بڑی عمر یا معذور افراد ہوتے ہیں جن کو ہین چینی بھی کہا جاتا ہے جبکہ ان خواتین کے پاس دستاویزات کی عدم موجودگی انہیں قانونی گڑھے میں داخل کردیتی ہے۔

تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین کو اکثر ان کے میاں کے لیے بچے کی پیدائش کے لیے ‘کرایے’ پر حاصل کیا جاتا ہے جس کے بعد پیسوں کے حصول کے لیے ان کو دوسرے شوہر کو بیچا جاتا ہے یا دباؤ کے تحت حوالے کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی وزیر خارجہ کا میانمار مظالم کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ

ڈبلیو کورٹ لینڈ رابنسن کا کہنا تھا کہ چند خواتین کی شادیاں کامیاب ہیں اور رضامندی کا معاملہ پیچدہ ہے جو ہر کیس کے حوالے سے مختلف ہوتا ہے۔

مون نائے لی نے کہا کہ لڑکیاں اکثر ‘اپنے والدین کو انکار نہیں کرسکتیں’ اور ‘اسمگلرز سے’ ایک مرتبہ شادی کرنے کی بات ماننے کو مجبوری تصور کرتی ہیں اور ایجنٹس ان کے والدین کو پیسے دے دیتے ہیں۔

محققین نے میانمار سے مطالبہ کیا کہ کیچن اور ریاست شان میں اس مسئلے کو ختم کردیا جائے جہاں ہزاروں خواتین بے گھر ہیں اور انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھی ہیں اور ان ملزمان کی گرفت کے لیے قانون کا اطلاق کریں اور خواتین کو متاثرہ قرار دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں