فرانس کی ’یلو ویسٹ‘ تحریک کو 'فیس بک' نے کیسے ایندھن فراہم کیا؟

07 دسمبر 2018
فرانس میں پرتشدد مظاہروں کا آغاز 17 نومبر کو ہوا تھا — فوٹو : اے ایف پی
فرانس میں پرتشدد مظاہروں کا آغاز 17 نومبر کو ہوا تھا — فوٹو : اے ایف پی

سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر موجود ’اینگری ڈرائیورز آف نارمینڈی‘ جیسے گروپوں نے فرانس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ’یلو ویسٹ موومنٹ‘ کو طاقت بخشی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق فیس بک کے چیف ایگزیکٹو افسر مارک زکر برگ نے رواں برس جنوری میں مقامی خبروں کو ترجیح دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ تبدیلی فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے لیے بحران کا باعث بنے گی۔

انٹرنیٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک الگورتھمز میں کی جانے والی تبدیلی کی وجہ سے نارمینڈی جیسے ’مشتعل گروپوں‘ کو ہزاروں افراد سڑکوں پر لانے میں مدد ملی اور گزشتہ ماہ پیرس میں عوام کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: فرانس میں حکومت مخالف مظاہرے بے قابو

17 نومبر کو فرانس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔

اس میں یہ چیز واضح ہے کہ ان گروپوں نے ان مظاہرین کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا جن کا تعلق فرانس کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتی علاقوں سے ہے۔

فیس بک گروپ ’اینگری ڈرائیورز آف نارمینڈی‘ کی ماڈریٹر کلوئے ٹیسیئر کا کہنا تھا کہ ’ہم معلومات حاصل کرنے سے لے کر اپنے آپ کو منظم کرنے سمیت تقریباً ہر چیز کے لیے فیس بک کا استعمال کرتے ہیں‘۔

اس گروپ کے تقریباً 50 اراکین ہیں۔

کلوئے ٹیسیئر نے کہا کہ ’جب ناکہ بندی کی جارہی ہوتی اور ہمارے پاس جلانے کے لیے پیلٹ نہ ہوتے یا کھانے کی اشیا کی کمی ہوتی تو ہم پوسٹ کرتے اور کوئی نہ کوئی ہمیں یہ چیزیں دینے آجاتا تھا، جبکہ ایسا فون سے کرنا ناممکن ہوتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’فیس بک ایک بہترین پلیٹ فارم ہے کیونکہ یہاں عمر دراز لوگ بھی موجود ہیں‘۔

اس مہم کا بڑا حصہ ان پنشنرز پر بھی مشتمل تھا جن کا کہنا تھا کہ ان کے الاؤنسز کم ہو رہے ہیں۔

الگورتھمز کی طاقت

پیرس کی ڈٹیروٹ یونیورسٹی میں ڈیجیٹل کلچر پڑھانے والے ٹریسٹن مینڈس کا کہنا تھا کہ ’یلو ویسٹ ایک منظم تحریک نہیں ہے، اس کا کوئی ترجمان ہے نہ ہی اس میں مرکزیت ہے، اس لیے فیس بک ان کے لیے بہترین ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ رواں برس فیس بک کی جانب سے الگورتھمز میں تبدیلی کے بعد سے بڑے میڈیا اداروں کی جانب سے چلائے جانے والے فیس بک پیجز پر شائع ہونے والا مواد کم دکھائی دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فیس بک نے گروپوں، انفرادی پروفائلز اور مقامی معلومات پر مبنی مواد شیئر کیے جانے کو ترجیح دی، الگورتھم میں کی گئی اس تبدیلی نے اس تحریک کو مزید طاقتور بنایا۔'

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ فیس بک کے ذریعے مشتعل افراد سڑکوں پر نکلے، 2011 میں عرب اسپرنگ اس کی پہلی مثال ہے۔

مزید پڑھیں: پرتشدد مظاہرے، فرانس میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے کا امکان

سری لنکا نے رواں برس فیس بک عارضی طور پر اس وقت بند کی تھی جب ایک ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقریر نے 'مسلم مخالف' فسادات بھڑکانے میں کردار ادا کیا تھا۔

یونیورسٹی آف نانتیس کے محقق اولیویر ارٹزشید کا کہنا تھا کہ ’فیس بک پر اشتعال انگیز مواد تیزی سے پھیلتا ہے‘۔

انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ ’فیس بک پر وہ مواد سب سے زیادہ کامیابی سے پھیلتا ہے جو غصے اور اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ 'فیس بک معلومات کے پھیلاؤ کے تکنیکی طریقہ کار کی پیشکش کرتا ہے جو اس کے لیے بالکل موزوں ہے‘۔

اڑتی ہوئی افواہیں

’یلو ویسٹ کے مختلف گروپوں اور ان کے تبصروں میں میڈیا کے خلاف غصے اور شبے کی لہر بھی پائی جاتی ہے، اسی طرح کی مہم اٹلانٹک کے دوسری جانب ٹرمپ کے ووٹرز کے درمیان بھی موجود ہے۔

فیس بک گروپ ’سٹیزن ان اینگر‘ جس کے تقریباً 16 ہزار اراکین ہیں، اس کے ’اباؤٹ‘ سیکشن میں لکھا تھا کہ ’سیاست دان جھوٹے ہیں، میڈیا جھوٹا ہے‘۔

تاہم ’یلو ویسٹ‘ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ووٹرز موجود ہیں، ان میں فرانس کی دائیں اور بائیں بازو کی جماعت کے ووٹرز بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس: پرتشدد مظاہروں کے دوران 80 سالہ خاتون ہلاک

اس میں وائرل ہونے والی پوسٹس میں یلو ویسٹ کے خلاف پولیس کے تشدد سے سالوں قبل مظاہرین کی خون آلود تصاویر کا استعمال کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر فرانس میں تشدد کی ایک بڑی لہر اٹھی تھی، اس حوالے سے فیس بک پوسٹس پر کیے گئے تبصروں میں اس تحریک کا غیر متوقع ہونا ظاہر تھا۔

بعض افراد نے پیرس میں آنسو گیس اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کو ہی اپنے مطالبات منوانے کے واحد راستے کے طور پر دیکھا۔

’اینگری فرانس‘ گروپ پر کیے گئے ایک تبصرے میں لکھا تھا کہ ’کیا آپ سوچتے ہیں کہ ایک لاکھ افراد پر مشتمل ایک پرامن مہم چیزیں بدل سکتی ہے؟ بدقسمتی سے میں ایسا نہیں سوچتا‘۔

تاہم دیگر افراد نے پیرس کا رخ کرنے والے افراد کو اشتعال انگیزی سے روکا کہ اس سے ان کا نہیں بلکہ انتہا پسندوں کا فائدہ ہوگا۔

ایک فیس بک گروپ، جس کے 30 ہزار سے زیادہ اراکین ہیں، پر کی گئی ایک پوسٹ میں درج تھا کہ ’اگر آپ تشدد کا راستہ اختیار کریں گے تو آپ سیاستدانوں کی طرح گیم کھیلیں گے، انہیں بتائیں کہ ہم انسان ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں