پاکستان اسٹیل ملز کی بندش سے متعلق تحقیقات عدم ثبوت پر بند

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2018
قومی ادارہ اربوں روپے کے خسارے کا شکار ہے—فائل فوٹو
قومی ادارہ اربوں روپے کے خسارے کا شکار ہے—فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کو قدرتی گیس کی فراہمی بند کرنے سے متعلق کی جانے والی تحقیقات بند کردیں۔

جون 2015 میں ملک کا سب سے بڑا صنعتی یونٹ گیس منقطع ہونے کے باعث بند ہوگیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دسمبر میں ایک ریفرنس پر تحقیقات کا حکم اس وقت کے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین اسد عمر نے دیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد اسد عمر کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ

اس ریفرنس میں یہ تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسٹیل ملز کی گیس کی فراہمی کیوں منقطع کی گئی، اسے بند کرنے پر مجبور کیا گیا یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس میں مداخلت کیوں نہیں کی جبکہ پی ایس ایم اور سوئی سدرن گیس کمپنی حکومت کی ملکیت تھیں۔

اس معاملے پر نیب کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کو لکھے گئے حالیہ خط میں کہا گیا کہ ’کوئی معتبر ثبوت مزید تحقیقات کی ضرورت کے لیے دستیاب نہیں، جس کے باعث معاملہ بند ہوجاتا ہے، نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے تمام الزامات کی جانچ پڑتال کی، تاہم کوئی مجرمانہ پہلو نہیں ملا، لہٰذا ایگزیکٹو بورڈ کی سفارشات پر چیئرمین نیب نے اس تحقیقات کو بند کرنے کی منظوری دی‘۔

یہ تحقیقات بند ہونے کا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب وزارت صنعت و پیداوار نے پاکستان اسٹیل ملز کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس بلائے تاکہ بحالی منصوبے کے لیے مشاورت اور حب پاور کمپنی (حبکو) کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کی منظوری دی جاسکے۔

واضح رہے کہ اسٹیل ملز بورڈ کے چیئرمین گزشتہ کئی ماہ سے وزارت صنعت و پیداوار کو چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) کے خالی عہدوں پر تقرر کے لیے لکھ رہے ہیں، یہ دونوں عہدے بالترتیب مئی 2016 اور جون 2013 سے خالی ہیں۔

اسد عمر کی جانب سے چیئرمین نیب کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ملز کی بندش سے ہر ماہ ایک ارب 40 کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے اور اسٹیل کی درآمدات کی وجہ سے غیر ملکی زرمبادلہ کو نقصان پہنچا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس جولائی میں قائمہ کمیٹی نے نیب کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بیوروکریسی کی جانب سے اس معاملے میں تاخیر کی گئی، جو قومی اثاثے کی بندش میں ملی بھگت کے شک کو تقویت دے رہی تھی۔

ریفرنس کے ریکارڈ میں یہ بات شامل کی گئی تھی کہ ملازمین کو کئی ماہ کی تنخواہیں ادا کرنی ہیں اور کئی برسوں سے ریٹائرمنٹ فوائد کی رقم واجب الادا ہیں، جس کے باعث ملازمین کی خودکشیوں کی اطلاعات ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کا کل نقصان اور واجب ادا قرض 470 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے، جس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 13 ارب روپے بھی شامل ہیں۔

ایک ماہ قبل حکومت کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کو نجکاری کرنے والے اداروں کی فہرست سے نکالا گیا تھا لیکن کمپنی میں اب تک سی ای او اور سی ایف او کا عہدہ خالی ہے، اس کے ساتھ تمام 8 ایگزیکٹو عہدے بھی ابھی تک خالی ہیں جبکہ 25 میں سے 24 جنرل منیجر موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان اسٹیل ملز کو 30 سالہ لیز پر دینے کی منظوری'

قومی ادارے میں موجود واحد جنرل منیجر سی ایف او کے کام کو دیکھ رہا ہے۔

دوسری جانب باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کی بحالی کے منصوبے پر حبکو کے ساتھ بات چیت کی گئی، جو پاک چین سرمایہ کاری بینک کی جانب سے کیے گئے ایک تفصیلی مطالعے سے زیادہ فائدہ پہنچائے گا۔

اس مطالعے کے مطابق 28 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (موجودہ ایکسچینج ریٹ پر 40 ارب روپے) کی ابتدائی سرمایہ کاری، بلا تعطل بجلی کی فراہمی اور نئی انتظامیہ کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کے اپنے مثالی مقام، مارکیٹ اور سہولیات کے ساتھ ایک منافع بخش ادارہ بننے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں