سندھ: ’اسٹریٹ کرائم کے مجرم کو 7 سال تک قید کی سزا ہوگی‘

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2018
وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت 23واں اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت 23واں اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون میں اصلاحات کر رہے ہیں، جس کے تحت اسٹریٹ کرائم کے مجرم کو 3 سے 7 سال تک قید کی سزا ہوگی۔

سندھ اپیکس کمیٹی کا 23 واں اجلاس وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں کور کمانڈر کراچی، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز، انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ، چیف سیکریٹری، صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ، مشیر وزیر اعلیٰ مرتضیٰ وہاب اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی، تاہم اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کو مدعو نہیں کیا گیا۔

اجلاس میں 22 ویں اپیکس کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد، موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ، نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ، انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش کے معاملات زیر غور آئے۔

مزید پڑھیں: ’کراچی بہت پیچھے رہ گیا، اسے ترقی یافتہ شہر بنانا ہے‘

سندھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے آغاز پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال بہترین ہے لیکن قائدآباد دھماکا، چینی قونصلیٹ پر حملہ اور گلستان جوہر میں محفل میلاد میں دھماکا افسوس ناک ہے، ہم سب کو سیکیورٹی صورتحال پر توجہ دینی ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری داخلہ کبیر قاضی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 22 ویں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کی روشنی میں مدارس کی رجسٹریشن اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی نگرانی کے لیے ورکنگ گروپ قائم ہوچکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ گروپ سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں قائم ہوا ہے جبکہ سیکریٹری مذہبی امور، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سماجی بہبود، صنعتیں، تعلیمی اداروں کے نمائندے شامل ہیں اور اس کا پہلا اجلاس 5 دسمبر کو ہوچکا ہے۔

جس پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صرف مدارس کی جیو ٹیگنگ نہیں ہوں گی بلکہ تمام تعلیمی اداروں کی ہوں گی، تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہشت گردی میں صرف چند مدارس کے بچے ملوث نہیں بلکہ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں کے بچے بھی ملوث رہے ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا مسودہ تیار ہوگیا ہے اور محکمہ قانون اس کا جائزہ لے رہا ہے، جس پر وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ جو مدارس مرکزی سڑک پر ہیں ان کی منتقلی کے لیے بات کی جائے اور مرکزی سڑک پر مدارس قائم کرنے کے لیے کوئی این او سی جاری نہیں ہوگا۔

دوران اجلاس کراچی سیف سٹی منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ منصوبے پر پبلک پرائیویٹ شراکت داری پر ہورہا ہے اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور سیف سٹی منصوبے پر کام کرنے والے دیگر اداروں کو درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنی تجویز دیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹریٹ کرائمزکے خلاف اعلان جنگ کیا جائے،آئی جی سندھ

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سیف سٹی میں صرف کیمرا نہیں بلکہ اس کا ردعمل بہت اہم ہے، یہ کیمرے داخلی اور خارجی مقامات پر نصب ہوں گے اور ردعمل میں پولیس، ٹریفک پولیس، فائر بریگیڈ اور ہر طرح کا ردعمل شامل ہوگا۔

اس موقع پر کور کمانڈر کراچی نے کہا کہ سائبر کرائم کا نظام ہمارا اپنا ہونا چاہیے، آرمی چیف کو درخواست کی جائے گی کہ وہ فوج کی سائبر سیکیورٹی ونگ سے سندھ حکومت کو مدد فراہم کریں۔

اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں سیف سٹی پائلیٹ پروجیکٹ کے طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ علاقائی پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے اس پر مل کر فیصلہ کریں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم کو قابو کرنے کے لیے قانون میں اصلاحات کی جارہی ہیں، سی آر پی سی کی دفعہ 30 کے تحت خصوصی مجسٹریٹ اسٹریٹ کرائم کے مقدمات کی سماعت کریں گے اور اس میں 3 سال سے 7 سال تک سزا ہوگی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم کے عفریت کو اب ختم کرنا ہے، اس میں تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر کام کریں۔

اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں 16 زمینوں کی پابندیوں سے متعلق مقدمات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور بتایا گیا کہ بلیک لسٹڈ ملزمان کے 16 مقدمات ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ان مقدمات میں 19 ملزمان ہیں، جن میں 3 کو سزا ہوچکی ہے اور 9 بری ہیں جبکہ 7 مقدمات کی سماعت جاری ہے۔

اس پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو ملزمان بری ہیں ان کے خلاف اپیل کی جائے گی اور ان مقدمات کے ٹرائل میں استغاثہ کے ساتھ جانچ پڑتال مل کر کی جائے گی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پراسیکیوشن اور تحقیقات میں تعاون کے لیے رینجرز، جیل کا عملہ اور دیگر متعلقہ ادارے مل کر کام کریں جبکہ نئے پراسیکیوٹر کی تربیت کی جائے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ پورے معاملے کی نگرانی اور اسے منظم کریں۔

مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ بلوچستان سرحدی فورس کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور انہیں آگاہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں ایک پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے اور 69 پولیس چوکیاں بنائی گئی ہیں، جن میں 381 اہلکار کام کر رہے ہیں جبکہ 10 پولیس موبائلز بھی مہیا کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ کے طالب علموں کو منشیات کا ٹیسٹ کرانا لازمی قرار

بریفنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان پولیس اسٹیشنز اور چوکیوں کی ہفتہ وار کارکردگی رپورٹ حکومت کے ساتھ شیئر کی جائے۔

اپیکس کمیٹی اجلاس میں بتایا گیا کہ بانی ایم کیو ایم کے نام سے 62 عمارتیں اور دیگر ادارے منسوب تھے جن کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ تمام 18سو 99 درگاہوں کا سیکیورٹی آڈٹ کیا گیا، جس کے بعد اہم درگاہوں کی سیکیورٹی بہتر کی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے 27 کروڑ روپے جاری کیے ہیں تاکہ ان درگاہوں پر سینسر، سی سی ٹی وی اور دیگر ضروری آلات نصب کیے جاسکیں۔

آئی جی سندھ کی بریفنگ

دوران اجلاس آئی جی سندھ نے بریفنگ دی اور بتایا کہ اس سال سندھ پولیس نے 12 ہزار 7سو33 مجرموں اور 601 گروپس کو گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ 97 مجرم مختلف انکاؤنٹرز میں قتل ہوئے جبکہ پولیس نے 2 راکٹ لانچرز، ایک سینئر رائفل، 2 ایل ایم جی، 4 جی تھری رائفل، 181 ایس ایم جی اور 8 ہزار 4سو 57 پستول برآمد کیں۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی ریجن کی پولیس نے 27 آتش گیر مادہ اور 205 بم یا دستی بم برآمد کیے جبکہ ڈکیتی کے دوران نومبر 2018 تک 47 افراد قتل ہوئے، 2017 میں یہ تعداد 55 تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ

اس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈکیتیوں کو ہر صورت کنٹرول کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اسٹیشن کی کارکردگی بہتر ہوگی تو یہ ڈکیتیاں ختم ہوجائیں گی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ چینی قونصلیٹ پر حملہ کرنے والے تینوں حملہ آور قتل ہوئے، اس کے علاوہ 23 افراد کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت پھانسیاں دی گئیں۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ اینٹی ٹیررازم فنانسنگ یونٹ نے 2 ہزار 2 سو 81 افراد پر کام کیا جبکہ اس یونٹ میں ایک ہزار 4 سو 57 اہلکار کام کر رہے ہیں اور باقی تربیتی مراحل میں ہیں۔

ڈی جی رینجرز بریفنگ

اجلاس کے دوران ڈی جی رینجرز نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ رینجرز نے 2018 میں 4ہزار 31 آپریشن کیے اور 2 ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے۔

انہوں نے بتایا کہ 2008 میں 4 ہزار 3 سو 88 گاڑیاں چوری ہوئیں جبکہ 2018 میں یہ تعداد 1100 پر آگئی۔

اسی طرح 2008 میں ایک ہزار 4سو 65 گاڑیاں چھینی گئیں جبکہ 2018میں یہ تعداد 165 رہی۔

ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ موٹرسائیکل چوری ہوکر ہمیشہ جرائم میں استعمال ہوئی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2008میں 27 ہزار 4 سو 63 موبائل فون چوری ہوئے تاہم 2018 میں یہ 18 ہزار 4سو 86 رہی، اس طرح 2008 میں 20ہزار 9 سو 46 موبائل فون چھینے گئے جبکہ رواں سال یہ تعداد 13 ہزار 5سو 97 رہی۔

ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ 2017 سے اسٹریٹ کرائمز میں 3ہزار 6 سو 41 گرفتاریاں ہوئی، جن میں 648 ڈرگ پیڈلرز، 92 جیب کترے اور 50 جواری شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ کرمنلز میں سے 43 فیصد میٹرک سے کم پڑھے لکھے ہیں جبکہ 38 فیصد ان پڑھ ہیں، 20 کرمنلز کی تعلیم چھٹی، 27 کی ساتویں، 695 کی آٹھویں تک ہے، اس کے علاوہ 10 بی کام بھی ہیں۔

ڈی جی رینجرز نے کہا کہ جرائم کی شرح میں کراچی 68 نمبر پر ہے، ہمیں اسٹریٹ کرمنلز کے لیے سماجی ترقی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔

اجلاس کے اہم فیصلے

بعد ازاں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بازاروں، شاپنگ مالز، فیکٹریوں اور دیگر اداروں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے ملازمین کو محفوظ موٹرسائیکل پارکنگ فراہم کریں۔

اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ موبائل فون خریدنے یا بیچنے والے کی مکمل معلومات دکاندار اور اداروں کے پاس ہونی چاہیے۔

اجلاس کے بعد صحافیوں کو تفصیل بتاتے ہوئے مشیروزیر اعلیٰ سندھ مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سندھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ موٹرسائیکلوں میں ٹریکرز لگائے جائیں گے اور اسپیئر پارٹس کی مارکیٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پرانی موٹرسائیکوں کی مارکیٹس میں کارروائی کی جائے گی اور آئی جی سندھ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کس طرح موٹرسائیکل کی چھینے کے واقعات کو ختم کیا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں یہ تجویز بھی آئی کہ ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ فروخت ہونے والے موبائل فون کی رجسٹریشن کی جائے تاکہ استعمال شدہ موبائل کی آڑ میں چوری شدہ موبائل فون کی فروخت روکی جاسکے۔

مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سندھ موٹرسائیکل مینوفکچرر کے لیے نئے موٹرسائیکل میں ٹریکر لگانے کو لازمی قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔

بارڈر سیکیورٹی فورس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کی مزید ترقی اور تربیت کےلیے اقدامات کیے جائیں اور اس فورس کو موثر طور پر استعمال کیا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ کچے اور پکے علاقوں کی بحالی کا کام کیا جائے اور وہاں کےلوگوں کو جرائم سے ہٹا کر عام لوگوں کے ساتھ شامل کیا جاسکے۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ سندھ سے بڑے جرائم ختم کیے، اسٹریٹ کرائم بھی ختم کریں گے، صوبے میں دیرپا قیام امن کےلیے مسلسل کوششیں کی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور اداروں کی کوششوں سے صوبے میں امن ہے، تجاوزات سے متاثرہ بے روزگار افراد کو متبادل فراہم کیا جائے گا۔

سیف سٹی منصوبے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلے مرحلے میں پائلیٹ پروجیکٹ ہوگا، جس کی ابتدا ریڈزون سے ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں