ترکی میں سعودی قونصلیٹ میں مارے جانے والے سعوی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے قبل آخری الفاظ کی آڈیو کی ٹرانسکرپٹ سامنے آگئی۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق آڈیو میں جمال خاشقجی نے قتل کرنے والوں کو اپنا دم گھٹنے کی شکایت کی۔

سی این این کی ٹرانسکرپٹ کے مطابق آواز بند ہونے سے قبل جمال خاشقجی نے تین مرتبہ کہا کہ ’میری سانس نہیں آرہی‘۔

قبلِ ازیں جمال خاشقجی نے قونصلیٹ میں کسی کو پہچان لیا اور کہا کہ ’یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘ جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ’تم واپس آگئے ہو‘۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

ذرائع کے مطابق جس شخص کو خاشقجی نے پہچانا تھا وہ سابق سعودی سفارتکار ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ کام کرنے والے سعوی انٹیلی جنس کے افسر مہر عبدالعزیز مطرب تھے جن سے صحافی بخوبی واقف تھے۔

خاشقجی نے کہا کہ ’تم لوگ ایسا نہیں کرسکتے، لوگ باہر میرا انتظار کر رہے ہیں‘، جس کے بعد کچھ لوگ خاشقجی پر جھپٹ پڑے اور انہوں نے انہیں دبا دیا۔

جمال خاشقجی نے تین مرتبہ کہا کہ ’میری سانس نہیں آرہی‘ جس کے فوراً بعد تیز دھار آلے کے چلنے کی آواز بھی سنائی دی گئی، اور پھر ان آوازوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک شخص نے کہا کہ تم لوگ ان آوزوں سے بچ کر اپنے ہیڈفون کان میں لگالو۔

سی این این کے مطابق ترک انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ یہ آواز ڈاکٹر صالح محمد الطبق کی تھی جو سعوی وزارتِ داخلہ کے حکام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کی ’تکلیف دہ‘ آڈیو نہیں سننا چاہتا، ڈونلڈ ٹرمپ

بعدِ ازاں چند فون کالز کی گئیں، جن میں سعودی انٹیلی جنس افسر مہر عبدالعزیز مطرب اعلیٰ حکام کو قتل کی پیش رفت سے آگاہ کرتے رہے۔

امریکی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ فون کالز سعودی دارالحکومت ریاض میں اعلیٰ حکام کو کی گئیں اور انہیں بتایا گیا کہ ’کام ہوگیا‘ ہے۔

سی این این کا کہنا ہے کہ اس آڈیو کی ٹرانسکرپٹ کو ترک انٹیلی جنس سروس نے تیار کیا ہے۔

دوسری جانب سعودی حکام نے صحافی کے قتل میں ملوث ملزمان کو ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں