وزیرِاعظم کراچی میں شب بسری کیوں نہیں کرتے؟

12 دسمبر 2018
یہ وہ شہر ہے جس نے جولائی 2018ء میں آپ کو 14 نشستیں دیں، معذرت کے ساتھ ان 14 نشستوں پر ہی آپ کی حکومت کھڑی ہے—خاکہ ایاز احمد لغاری
یہ وہ شہر ہے جس نے جولائی 2018ء میں آپ کو 14 نشستیں دیں، معذرت کے ساتھ ان 14 نشستوں پر ہی آپ کی حکومت کھڑی ہے—خاکہ ایاز احمد لغاری

وزیرِاعظم عمران خان اتوار کو بھی کراچی میں محض 10 گھنٹے سے کم وقت گزار کر واپس دارالحکومت پہنچ گئے۔ اپنی حکومت کے 110 دنوں میں کراچی میں یہ ان کا دوسرا دورہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ’تبدیلی‘ کے دعویدار ہمارے خان صاحب نے ماضی کے وزرائے اعظم کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس دورے میں بھی کراچی میں شب بسری سے گریز کیا۔

یقین کیجیے کہ صرف ہمارے موجودہ وزیرِاعظم عمران خان ہی نہیں، بلکہ میری یادداشت کے مطابق ماضی کے تمام وزرائے اعظم کا دورہِ کراچی کا ایک لگا بندھا شیڈول ہوتا ہے، جو خارجہ اور داخلہ کے بابوؤں کی معروف بدنامِ زمانہ Red book کے مطابق انہیں تھمادیا جاتا ہے۔ سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی بات اور تھی کہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں ان کے آبائی گھر تھے۔ لہٰذا عموماً ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ بھی ان کے پروگرام کا شیڈول کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سرکاری مصروفیات کے علاوہ ایک یا 2 شامیں ذاتی اور خاندانی دوستوں کے ساتھ ضرور گزارتے۔

وزرائے اعظم کراچی میں شب بھر قیام کیوں نہیں فرماتے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ذرا ان کے قیام کی مصروفیات پر نظر ڈالتے ہیں، وزیرِاعظم اپنے ذاتی اسٹاف کے ساتھ عموماً دوپہر 12 بجے گورنر ہاؤس پہنچتے ہیں، اب چونکہ پچھلی ایک دہائی سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی ہی حکومت ہے اس لیے یہ ان کی مجبوری اور ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے نامزد کردہ گورنر کے ہی گھر میں پڑاؤ ڈالے رہیں۔

پہلے گھنٹے میں ان کی نشست گورنر، کورکمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز کے ساتھ ہوتی ہے، اگلے دوسرے گھنٹے کی نشست میں وزیرِاعلیٰ سندھ، چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری اور آئی بی کمشنر بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ تیسرے گھنٹے میں ان کی ملاقات شہر کے مقتدر تاجروں، صنعت کاروں سے کروائی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے تجارتی اور صنعتی گھرانوں کے کم و بیش وہی نمائندہ حضرات موجود ہوتے ہیں جو شریفوں اور زرداریوں کے دور میں اسی طرح وزیرِاعظم کے سامنے اپنی عاجزانہ تجاویز پیش کررہے ہوتے تھے۔ چوتھا گھنٹہ شام کا پہلا پہر میڈیا کے لیے ہوتا ہے۔

لیکن وزیرِاعظم عمران خان کے اس دورے میں ان کی یہ مصروفیت نہیں رکھی گئی کہ خود وزیرِ اطلاعات ہی پکنک پر گئے ہوئے ہیں، ایسے میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ میڈیا کو مدعو کرنے کی ذمہ داری اطلاعات جیسی حساس وزارت کا کوئی بابو کیوں لیتا؟ اور یوں روانگی سے قبل کا آخری گھنٹہ ’پارٹی اراکین اسمبلی‘ اور عہدیداروں کے لیے ہوتا ہے۔ مگر اس میں بھی ’پسندیدہ اور ناپسندیدہ‘ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

یوں سورج ڈوبنے سے پہلے وزیرِاعظم کی روانگی کا وقت آجاتا ہے۔ ہمارے وزیرِاعظم کے گزشتہ اور موجودہ دورے کا شیڈول سامنے رکھ کر دیکھ لیں، اگر ایک لائن یا نقطے کا فرق ہو تو۔۔۔ تو۔۔۔ اب محترم خورشید شاہ کی طرح 50ویں بار تو یہ جملہ دہراؤں گا نہیں، ’کہ صحافت چھوڑدوں گا‘ کہ دوسری صورت میں بقول غالب ’دلی میں رہیں کھاویں گے کیا‘۔ ہاں یاد آیا ہمارے محترم میاں نواز شریف اپنے 5 سالہ دورِ وزارت عظمیٰ کے دوران ایک بار ایک شب کراچی ٹھہر گئے تھے۔ یہ اتنا غیر معمولی تھا کہ اچھی طرح یاد ہے اس کی ’بریکنگ نیوز‘ بھی بنی تھی۔

اپنے محترم وزیرِاعظم عمران خان سے بہرحال شکوہ ہے کہ نئے پاکستان میں تبدیلی کے دعویدار وزیراعظم نے ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح اس روایت کو کیوں نہیں توڑا کہ اس وقت آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر مسائلستان بنا ہوا ہے۔ اسٹریٹ کرائم میں گزشتہ کے مقابلے میں سالِ رواں 10 فیصد اضافہ ہوگیا ہے، ہر روز 100 موبائل چھننے کی وارداتیں باقاعدہ رپورٹ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں چھیننے کی بھی روزانہ سینچری ہوتی ہے۔ تجاوزات کے نام پر ان دنوں سارا شہر بلبلارہا ہے، ٹریفک کا یہ عالم ہے کہ چیونٹی کی بھی رفتار تیز ہے۔

گرین لائن کے منصوبے نے آدھے شہر کو ادھیڑ کر رکھا ہوا ہے، سرکولر ریلوے کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور پھر خان صاحب یہ وہ شہر ہے جس نے جولائی 2018ء میں آپ کو 14 نشستیں دیں حتیٰ کہ لیاری تک میں آپ کے ایک 12ویں کھلاڑی نے کھلاڑیوں کے کھلاڑی بادشاہ گر کے پرنس کو شکست دی تھی۔

معذرت کے ساتھ ان 14 نشستوں پر ہی آپ کی حکومت کھڑی ہے۔ تعصب کی تہمت نہ لگے، مگر حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ان 110 دنوں میں آپ اپنے آبائی شہر لاہور اور آبائی سیاسی گڑھ پشاور تو کئی مرتبہ گئے، لیکن یادداشت پر زور ڈال رہا ہوں کہ اندرونِ سندھ اور وسیع و عریض جنوبی پنجاب میں آپ کا گزر کب ہوا؟ غلطی پر ہوں تو اپنے کسی معاونِ خصوصی یا پھر ہم سے ذاتی طور پر آشنا عزیزم نعیم الحق سے کہہ دیجیے گا کہ میری غلطی بلکہ غلط بیانی کو درست فرمادیں لیکن اگر ان کے پاس اتنا وقت ہوتا تو اپنے گھر ان 110 دنوں میں کراچی نہ آتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Muqeet Dec 12, 2018 03:08pm
Nice