بھارتی الیکشن کمیشن نے 5 ریاستوں، مدھیہ پردیش، میزو رام، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور راجستھان کے انتخابی نتائج کا اعلان کردیا ہے، جس کے مطابق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 3 بڑی ریاستوں میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔

ان 5 ریاستوں میں ریاستی انتخابات کا عمل 2 ماہ تک جاری رہا۔ اس میں 678 نشستوں کے لیے 8 ہزار 500 امیدواروں نے حصہ لیا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اصل سیاسی اکھاڑا چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں سجے گا۔ ان ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا اور تلنگانہ میں ’تلنگانہ راشٹریہ سمیتھی‘ اور میزورام میں ’میزو نیشنل فرنٹ‘ کو عوام کے ووٹ حاصل ہوجائیں گے۔

پانچوں ریاستوں میں ایک ہی دن اور ایک ساتھ ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ توقع کے عین مطابق تینوں اہم ریاستوں کے انتخابی نتائج کانگریس کے حق میں آئے اور تلنگانہ میں بھی کانگریس دوسرے نمبر پر رہی۔ اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین 2009ء سے پرانے حیدرآباد کی 7 نشستوں پر انتخاب جیتتی آرہی ہے۔ 2004ء کی طرح اس بار بھی وہ اپنی 7 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی، اس بار ان کے بھائی اکبر الدین اویسی نے بھی میدان مار لیا۔ جبکہ یہاں سے بی جے پی کے حصے میں صرف ایک سیٹ آئی۔ اویس الدین اویسی نے اپنے مخالفین کو بتا دیا کہ انہیں عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور حیدرآباد کا مضبوط ووٹ بینک ان کے ساتھ ہے۔

راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی کانگریس کی برتری واضح ہوتی چلی گئی لیکن مدھیہ پردیش میں ووٹوں کی گنتی دونوں کے لیے کشمکش سے بھرپور ثابت ہوئی۔ شروع میں بی جے پی آگے آگے رہی لیکن آخر میں میدان کانگریس نے ہی مارا۔ ان ریاستوں کا مودی کے ہاتھوں سے نکلنا، بی جے پی کے لیے ایک بڑی شکست کے طور پر تصور کیا جا رہا ہے۔

خیر مودی نے دل بڑا کرتے ہوئے کہا کہ، وہ ’عوام کے ووٹوں کا احترام کرتے ہوئے ان نتائج کو قبول‘ کرتے ہیں اور یہ کہ ‘انتخابی ہار اور جیت سیاسی زندگی کا حصہ ہے۔‘ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انہوں نے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے عوام کا شکریہ ادا کیا کہ ’انہوں نے بی جے پی کو مزید کام کرنے کا موقع فراہم کیا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’ان ریاستوں میں اپنے عوامی بھلائی کے کاموں کو جاری رکھیں گے۔‘

راہول گاندھی کی سیاست میں واپسی کی نوید سنانے والے ان ریاستی انتخابی نتائج نے بی جے پی کے اقتداری مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور ان ریاستی انتخابی نتائج کے اثرات بلاشبہ 2019ء میں منعقد ہونے والے آئندہ راجیہ سبھا کے انتخابات پر بھی پڑیں گے۔

ان نتائج سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی نعرے عوام کے بنیادی مسائل پر نہیں بلکہ مذہب اور ذات برادری پر مبنی تھے اور ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگانے والے مودی پوری مہم کے دوران ’ہندتوا‘ کا پرچار کرنے والوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ جس کو عوام نے بری طرح مسترد کردیا۔

بھارتی وزیراعظم سیاسی شطرنج کے اچھے کھلاڑی ہیں مگر 11 دسمبر کے ریاستی انتخابی نتائج نے ان کے سیاسی مستقبل کو بڑی حد تک واضح کردیا ہے۔ ان نتائج سے پہلے 22 بھارتی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ جن میں سے 13 ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی بغیر کسی سیاسی گٹھ جوڑ کے حکومت کر رہی تھی۔ جبکہ 9 ریاستوں میں اسے مختلف اتحادیوں کا ساتھ حاصل ہے۔

کئی سالوں سے نیشنل ڈیموکریٹک آلائینس (این اے ڈی) ایک بڑا انتخابی اتحادی گروہ بن چکا ہے جس میں بی جے پی، شِو سینا، شیورومانی اکالی دل، تیلگو دیشم پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی شامل ہیں۔ سیکولر سوچ رکھنے والے ووٹرز نے بی جے پی کی تنگ نظر سیاسی و اقتداری سوچ کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ 5 ماہ بعد ہونے والے راجیہ سبھا کے انتخابات میں یہ اتحاد قائم رہتا ہے یا اس میں بھی دراڑ پڑ جائے گی۔

بی جے پی سرکار میں مذہبی تناؤ بڑھتا گیا جبکہ حکمراں جماعت کی جانب سے انتہا پسند عناصر کی سرپرستی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہر بار کی طرح اس انتخابی عمل میں بھی بی جے پی اور ان کے ہمنواؤں کا سارا زور مسلمانوں اور اقلیتوں کو دبانے پر رہا۔ گیروا رنگ کی سیاست کرنے والے عوام دوست پالیساں نہ لاسکے البتہ مقروض کسانوں کی خودکشیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق 1995ء سے 2010ء تک 2 لاکھ 57 ہزار کسان خودکشی کرچکے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق صرف مہاراشٹرا صوبے میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہر دن اوسطاً 7 کسانوں نے قرضہ معاف نہ ہونے کے باعث خودکشی کی۔

30 نومبر کو ہزاروں کسانوں نے بھارتی دارالحکومت دہلی کا رخ کرتے ہوئے سال کا چوتھا بڑا احتجاجی اجتماع کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ بھارت کی نصف آبادی زراعت کے شعبے سے منسلک ہے لیکن ان پر جی ڈی پی کا صرف 15 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ کسانوں کے ووٹوں نے بھی بی جے پی کو نقصان پہچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ بی جے پی حکومت نے زراعت کے شعبے پر توجہ نہیں دی۔ کسان اور زراعت سے وابستہ دیگر لوگ چیختے رہ گئے کہ ان کو فصلوں کا مناسب معاوضہ نہیں دیا جا رہا لیکن مودی حکومت تو نوٹ بندی سے معاشی بہتری کا شور مچاتی رہی۔

ساتھ ہی بابری مسجد تنازع اور گاو کشی سے مسلمان ووٹروں کو خوفزدہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دینے کے لیے عدلیہ پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جبکہ راشٹریہ ہندو پرشید (آر آر یس) بجرنگ دل اور بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی کو عوامی رائے کا نام دیتے ہوئے رام مندر کا بل پاس کرانے کی تجویز کا شور بھی مچایا گیا۔

حالیہ ریاستی انتخابات کے نتائج سے مودی اور ان کی جماعت کو سمجھ آ گیا ہوگا کہ ان خبروں سے مسلمان ووٹر تو خوفزدہ ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’سیکولر‘ بھارتی چہرہ بھی داغ دار ہوا، لہٰذا ریاستی انتخابات کے ذریعے بی جے پی کی اقلیت مخالف اور محدود ذہنیت اور نظریے کو بھارتی عوام نے بری طرح مسترد کردیا ہے۔

اب تو حالات اس قدر سنگین ہیں کہ خود بھارتی سپریم کورٹ ’سیکولر بھارت اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ کے تشخص کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ وہ پہلے ہی انتخابی مہم میں مذہب، نسل، ذات یا زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگنا غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی ہے، جبکہ بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کا سارا زور مذہبی اختلاف کو بڑھانے، طبقات اور ذاتوں میں بٹے بھارتی عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے میں لگا دیا ہے۔

مدھیہ پردیش کٹر ہندو سیاست کی حامی ریاست سمجھی جاتی ہے لیکن یہاں مسلم ووٹ بینک نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان، بی جے پی کے 38 سالہ سیاسی تاریخ میں کبھی بھی ’ووٹر ٹارگٹ‘ نہیں رہے۔ مگر حکمراں جماعت کو ڈر تھا کہ کہیں کانگریس مسلم ووٹر کا فائدہ نہ اٹھا لے، لہٰذا مسلمانوں کو نفسیاتی مار مارنے کے لیے بی جے پی کے بڑے راہ نماؤں نے مسلم ووٹر کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کو مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم امیدوار نہیں مل رہے تھے۔ کڑی تنقید کا سامنا ہوا تو مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں فاطمہ رسول صدیقی کو بی جے پی کا رکن بنایا گیا اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی انہیں سیاسی بساط بی جے پی کی واحد مسلم امیدوار کے طور پر کھڑا کردیا گیا جو کانگریس کے عارف عقیل کے ہاتھوں ہار گئیں۔

15 سال بعد بھارتی سیاست میں اپنی واپسی کرنے والی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو بڑے سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے۔ یقیناً تازہ ریاستی نتائج سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہوگا لیکن ان کو سمجھنا ہوگا کہ عوام صاف پانی، غذا، تعلیم، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اہم مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ فضائی آلودگی پر فوری توجہ چاہتے ہیں اور بھارتی عورت کو تحفظ ہی نہیں بلکہ مندر میں جانے کی اجازت بھی چاہیے۔

کانگریس اپنی اس کامیابی کو دوام بخشنا چاہتی ہے تو پھر نوجوان ووٹرز اور ان کی سیاسی سوچ پر بھی توجہ دینا ہوگی کیونکہ بھارت کی 17 اعشاریہ 69 فیصد آبادی 15 سے 24 سال کے درمیان ہے جبکہ 41 فیصد آبادی 25 سے 54 سال کے درمیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارتی آبادی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی بھارتی سیاست میں اپنا کردار ادا کر ے گی۔

بھارتی وزیراعظم مودی عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ کسانوں کی حالتِ زار سے آنکھیں چراتے رہے، اگر ان کے جائز مطالبات کو بروقت توجہ دیتے تو عین ممکن تھا کہ ووٹوں کا تناسب اور نشستوں کی تعداد کچھ اور ہوتی۔ گانگریس کو بھی سمجھنا ہوگا کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والا اور عوام دوست بھارت کا خواب بھارتی عوام کی آنکھوں میں سجا ہوا ہے۔ ان کے خواب کو نہ توڑیں ورنہ بی جے پی کا حشر سب کے سامنے ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Nazim Dec 14, 2018 04:26am
Very good article. What is the use of arsenal, wasting billions on going to moon and mars if lacs of poor kisan commit so side each year that too in Mahaatma Gandhi country.