اُن تھکے ٹوٹے وجودوں کو سلام جو منزل کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ اُن تھکی ہوئی روحوں کو سلام جو اس خاکی قفس سے نجات کے لیے مچلتی ہیں۔ سلام ان جسموں پر نیند جن کی تھکان اُتار نہیں پاتی کہ روحیں ہی جب تھک چکی ہوں تو نیندیں صرف وقت بِتانے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان سے کوئی آرام کوئی راحت میسر نہیں آتی۔

وہ میرے کندھے مضبوطی سے پکڑے، مجھے جھنجوڑ کر کہنے لگا، ’تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے چندہ۔ تم خود کو غلط جگہ پر ضائع کر رہے ہو۔ تمہاری یہ ریس ہی نہیں ہے جس میں تم بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔ اس ریس میں تمام عمر دوڑتے رہو تو بھی منزل پر نہیں پہنچ پاؤ گے اور اپنی تمام توانائیاں ضائع کر ڈالو گے۔‘

’کیا مطلب؟‘ میرے وجود میں سالوں سے جمی گرد پر کسی نے ایک دم پھونک دیا تھا۔ ہر طرف گرد اُڑ گئی۔

میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگا، ’دنیا ایک دوڑ ہے پیارے اور یہاں ہر فرد کسی نہ کسی ریس کا حصہ ہے۔ زندگی میں ہر سمے، ہر سمت کوئی نہ کوئی ریس چل رہی ہوتی ہے۔ اس ریس کا آغاز تب سے ہوتا ہے جب ہم پیدا ہوتے ہیں اور تب تک جاری رہتا ہے جب تک ہم قبر میں نہیں اُتر جاتے۔

یہ مجھے اس نے سکھایا تھا کہ دنیا تماش بینوں کا میلہ ہے۔ ایسے تماش بین جو جوا لگا کر تماشا دیکھتے ہیں۔ یہ آپ میں اس شے کی طلب ڈالتے ہیں جس کی آپ کو چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف کسی ایسے مقابلے میں دھکیل دیتے ہیں جس میں جلتے بھونتے دیکھ کر انہیں تسکین حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اپنا آپ اکیلا نہیں لگتا۔ تنہا نہیں لگتا۔ ان کا ڈر بٹ جاتا ہے۔

یہ ایک عالمی کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں آپ کو لالچ اور دھوکے سے ایسی ریس میں شامل کیا جاتا ہے جو آپ کی معصومیت یا کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر ترتیب دی جاتی ہے۔ آپ اس میں جس قدر ہلکان ہوتے ہیں، بھگانے والوں کو اتنا ہی منافع ملتا ہے۔ کہنے لگا، تمہیں ایک بات بتاؤں ایسی ریس بہت ’ایڈِکٹِو‘ ہوتی ہے۔ ہم اس کے اس قدر عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ اس سے نکلنا ہمیں ناممکن لگتا ہے۔ ہمیں اس ریس کے چھوڑنے کے خیال سے ہی ہزاروں سوچیں، ڈر، خوف اور وسوسے دامن گیر ہوجاتے ہیں۔ یہ ریس ہماری ’اِن سیکیورٹیز‘ پر طول پکڑتی ہے۔ اِن سیکیورٹی دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔

وہ میرا ہمدرد تھا، کبھی بہت تھکنے لگو، زندگی بے معنی لگنے گے، دل کسی اور طرف جھکنے لگے اور زندگی کاندھوں کا بوجھ لگنے لگے تو صرف ایک لمحے کو رُک کر، اپنے آس پاس نظر دوڑا کر یہ دیکھ لینا کہ کیا تم کسی غلط ریس کا حصہ تو نہیں؟ کیا تم کسی ایسے مقابلے میں تو خود کو ہلکان نہیں کررہے جو سرے سے تمہارے لیے ہو ہی نا؟

پاگل بچے! زندگی میں اپنی ریس ہمیشہ خود چننا، اور کسی ایسی ریس کا حصہ مت بننا جو تم سے تمہارا سکون چھین کر تمہیں ان دیکھے، ان چاہے سرابوں کے پیچھے لگا دے۔ ایسے سرابوں کے پیچھے جو اگر مل بھی جائیں تو ان کی وقعت اس سے زیادہ نہ ہو کہ تم لوگوں کی نظر میں معتبر مانے جاؤ۔ پُرسکون ہونا معتبر ہونے سے زیادہ اہم ہے۔

جس ریس نے تمہاری روح تک ہلکان کردی ہے کیا وہ واقعی تم نے خود اپنے لیے چُنی تھی؟ کیا واقعی یہ ریس تمہاری قربانیوں کے قابل ہے؟

میرے آس پاس اس کے جواب میں ایسی کئی مثالیں موجود تھیں۔ گھر میں، خاندان میں، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں۔ میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی طور پر ایسی ریسوں کا حصہ بنتے جارہا تھا کہ جو سراسر میری نہیں تھیں۔

مجھے ان ریسوں میں جھونکنے والے میرے اپنے ماں، باپ، دوست، رشتہ دار اور اساتذہ تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں میرے سامنے مثال بنا کر پیش کیا جاتا تھا، اور وہ بھی جن سے مجھے مقابلہ کرنے اور موازنہ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ حالانکہ مجھے ان جیسا بننا چنداں مطلوب نہیں تھا۔

میں بھی چند سرابوں کے پیچھے تھا۔ خوشیوں کے سراب، کامیابی و کامرانی کے سراب۔ توصیف اور اعزازات کے سراب۔ دنیا کے تراشیدہ سراب جن کی حقیقت میں حسد، حرص اور لالچ گندھی ہوئی تھی۔ میں اس قدر تیز بھاگ رہا تھا کہ مجھے یہ تک سوچنے کی فرصت نہیں تھی کہ اس ریس کی جو منزل دکھائی جارہی ہے وہ دراصل مجھے مقصود بھی ہے یا نہیں۔ میں اس قدر اُلجھ گیا تھا کہ مجھے اس بات پر غور کرنے سے زیادہ بھاگتے رہنا آسان لگتا تھا۔ کبھی کبھی غور کرنا بھی آپ کو خوف زدہ کردیتا ہے۔

میرے ساتھ ایسے کئی لوگ تھے جنہیں اس بات کا ادراک تک نہیں تھا مگر وہ بے جا مقابلوں اور موازنوں میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کی جوانیاں گھل گئیں، عقل ضعیف ہوگئی مگر ان پر یہ آشکار نہ ہوسکا کہ وہ جس ریس میں ہیں وہ سرے سے ان کی ہے ہی نہیں۔

یہ ریس جوانی کو چوُر کرکے، حوصلے کو توڑ کر، راستے سے ورغلا کر، روح کو بے حد تھکا دیتی ہے۔ یہ وقت سے پہلے بوڑھا کردیتی ہے۔ میں ایک عمر اس ریس کا حصہ رہا ہوں۔ میرا محسن سلامت رہے کہ جس نے مجھے اس دوڑ سے بے نیاز کردیا، وہ مجھے ہلکان کیے جا رہی تھی۔ البتہ میں اب بھی انہیں دیکھتا ہوں جو خود پر مسلط ریسوں میں دوڑ دوڑ کر ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ ایک دائرے میں بھاگ رہے ہیں۔ مجھے ان سب سے ہمدردی ہے۔

اُن تھکے ٹوٹے وجودوں سے جو منزل کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ اُن تھکی ہوئی روحوں سے جو اس خاکی قفس سے نجات کے لیے مچلتی ہیں۔ ان جسموں سے نیند جن کی تھکان اُتار نہیں پاتی کہ روحیں ہی جب تھک چکی ہوں تو نیندیں صرف وقت بِتانے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان سے کوئی آرام کوئی راحت میسر نہیں آتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں