برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2018
برطانوی وزیراعظم تھریسامے — فائل فوٹو
برطانوی وزیراعظم تھریسامے — فائل فوٹو

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے خلاف ان کی اپنی ہی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔

تھریسامے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے تحت کی گئی رائے شماری میں ان کے حق میں200 جبکہ ان کی مخالفت میں 117 ووٹ دیے گئے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 63 ووٹ حاصل کرنے کے بعد آئندہ ایک سال تک تھریسامے کی قیادت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

کنزرویٹو پارٹی کے 48 ارکین نے تھریسامے کی بریگزٹ پالیسی کو 2016 کے ریفرنڈم نتائج کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک کی درخواست دی تھی۔

وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 83 ووٹوں سے ناکام ہوئی، کنزرویٹو پارٹی کے 63 فیصد اراکین نے تھریسامے کی حمایت میں اور 37 فیصد نے ان کی مخالفت میں ووٹ دیے۔

عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کے نتائج کے بعد تھریسامے کا کہنا تھا کہ وہ یورپی یونین کے اجلاس میں بریگزٹ معاہدے میں تبدیلی کی کوشش کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ آج ہونے والی رائے شماری میں اپنے ساتھیوں کی حمایت پر خوش ہوں ‘۔

مزید پڑھیں : بریگزٹ معاہدے میں ناکامی حکومت گرا سکتی ہے، برطانوی وزیراعظم

تھریسا مے کا کہنا تھا کہ ’میں اس حمایت کے لیے شکر گزار ہوں، جن اراکین نے میرے خلاف ووٹنگ کی ان کے تحفظات کو سننا ہے‘،

دوسری جانب تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مطالبہ کرنے والے پارٹی رکن جیکب ریز کا کہنا تھا کہ پارٹی وزرا کے تیسرے حصے کی حمایت سے محروم ہونا ’وزیراعظم کے لیے ہولناک ہے‘۔

جیکب ریز نے تھریسا مے کے استعفیٰ کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر دہرایا۔

بریگزٹ کے حمایتی کنزرویٹو رہنما مارک فرانکوس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ خطرناک بات ہے کہ حکومت میں شمولیت نہ رکھنے والے نصف سے زائد اراکین نے وزیراعظم کا ساتھ چھوڑ دیا‘۔

انہوں نے کہا کہ 117 اراکین کی مخالفت اہم ہے جو کسی پیش گوئی سے کہیں زیادہ ہے، اب وزیراعظم کو آئندہ لائحہ عمل کے مطابق دھیان سے سوچنے کی ضرورت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں :آئندہ انتخابات سے قبل ہی استعفیٰ دے دوں گی، برطانوی وزیر اعظم

دوسری جانب لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربین نے کہا کہ ’اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے کچھ نہیں بدلا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ تھریسا مے پارلیمنٹ میں اکثریت کھوچکی ہیں، ان کی حکومت افرا تفری کا شکا ر ہے اور وہ ملک کے لیے بریگزٹ معاہدہ پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی میں بریگزٹ کے حامیوں کی جانب سے عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات سے قبل استعفیٰ دے دیں گی۔

اس سے قبل تھریسا مے نے کہا تھا کہ وہ اپنے عہدے کے لیے ہر ممکن حد تک لڑیں گی تاہم اپنی جماعت کے قانون سازوں کے ساتھ بند کمرہ اجلاس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنی جماعت کی قیادت نہیں کریں گی۔

واضح رہے کہ برطانیہ، یورپی یونین سے 4 ماہ بعد 29 مارچ کو علیحدگی اختیار کرے گا تاہم اس علیحدگی پر تنازع اب بھی برقرار ہے جو ایک نئے ریفرنڈم کے ذریعے فیصلے کو تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیں : مصالحت نہیں ہوگی، یورپی یونین کا برطانیہ کو واضح پیغام

برطانوی وزیراعظم 2016 میں اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد سے برطانیہ میں سب سے بڑے بحران کا سامنا کررہی ہیں۔

جون 2016 میں برطانوی قوم نے 46 برس بعد دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد اور اس کےخلاف 48 فیصد ووٹ دیے تھے۔

تھریسا مے اس وقت بریگزٹ اور یورپی یونین دونوں ہی کے حامیوں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہیں جو اس مسئلے پر دوسرے ریفرنڈم یا ایک معاہدے کےتحت یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان مزید مضبوط تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم حکومت گرنے کے خدشات کے پیش نظر 11 دسمبر کو بریگزٹ معاہد ے پر ہونے والی ووٹنگ کو مؤخر کردیا گیا جو اب آئندہ سال جنوری میں کیے جانے کے امکانات ہیں۔

یورپی یونین نے برطانیہ کو واضح پیغام دیا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے معاہدے میں وضاحت دیں گے، یقین دہانی کروائیں گے لیکن دوبارہ مصالحت نہیں ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں