راولپنڈی: جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیش کے دوران اہم پیش رفت ہوئی ہے، ان کے سیکریٹری احمد شاہ کو گرفتارکرلیا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق سیکریٹری احمد شاہ کو مولانا سمیع الحق کے لواحقین کی معاونت سے گرفتار کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد احمد شاہ پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے تھے اور متعدد کوششوں کے باوجود بھی گرفتار نہیں کیے جاسکے تھے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد شاہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیش میں اہم ترین فرد ہوسکتے ہیں، ان سے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں : مولانا سمیع الحق کا قتل: 'سیکریٹری احمد شاہ شامل تفتیشں'

خیال رہے کہ 2 نومبر کی شام کو راولپنڈی میں نامعلوم افراد نے مولانا سمیع الحق کو ان کے گھر میں داخل ہو کر قتل کردیا تھا۔

حملے سے متعلق ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ان کے محافظ، جو ان کے ڈرائیور بھی تھے، نے بتایا کہ وہ کچھ وقت کے لیے انہیں کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر گئے اور جب وہ واپس آئے تو مولانا انہیں شدید زخمی حالت میں ملے تھے۔

ان کے قتل سے متعلق جے یو آئی (س) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’مولانا سمیع الحق کے اہل خانہ، دارالعلوم حقانیہ، ان کی جماعت اور ان کے ہزاروں ماننے والوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مولانا کا قتل اندرونی معاملہ نہیں بلکہ اس میں بھارتی، افغان اور دیگر عناصر ملوث ہیں۔

بعد ازاں قتل کی تفتیش کے دوران گزشتہ مہینے مولانا کے سیکریٹری احمد شاہ کو تفتیشں میں شامل کرنے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔

سیکریٹری احمد شاہ کو ضابطہ فوجداری 160کے تحت طلبی اور شامل تفتیشں کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق کے قتل میں اب تک 22 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں، جن میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے ملازمین اور سوسائٹی کے رہائشی بھی شامل ہیں۔

گزشتہ مہینے سیکریٹری احمد شاہ سے متعلق یہ رپورٹس بھی آئی تھیں کہ وہ اکوڑہ خٹک میں واقع اپنی رہائش گاہ سے گزشتہ 3 سے 4 روز سے لاپتہ تھے۔

یہ بھی پڑھیں : راولپنڈی: مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں جاں بحق

اس حوالے سے ان کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے ہیں جبکہ پولیس نے ان کی حراست کی تردید کی تھی۔

جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ سمیع الحق خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں قائم دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ کے نگران تھے۔

وہ دو مرتبہ، 1985 سے 1991 اور 1991 سے 1997 تک سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد کے بنائے ہوئے مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں حاصل کی تھی اور بعد ازاں انہوں نے اس مدرسے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں