فرانس کے صدر سے کہاں غلطی ہوئی؟

14 دسمبر 2018
میکرون اپنی خراب حکومت کو لاحق اس چیلنج سے کیا سبق سیکھتے ہیں، ابھی کچھ بھی واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا۔
میکرون اپنی خراب حکومت کو لاحق اس چیلنج سے کیا سبق سیکھتے ہیں، ابھی کچھ بھی واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا۔

پورے فرانس میں جاری پُرتشدد عوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جب اپنے چوتھے ہفتے میں داخل ہوا تو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے پیر کے روز قوم سے خطاب میں اس بات کو تسلیم کیا کہ سڑکوں پر نظر آنے والا غصہ ’گہرا ہے اور کئی زاویوں سے درست بھی۔‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ، کچھ ایسے ’لوگ ضرور ہیں جن کے درجے کو معاشرے میں پوری طرح سے تسلیم نہیں کیا گیا، دراصل ہم بڑے ہی بزدلانہ انداز میں اس کے عادی ہوچکے تھے، اور اب معاملات دیکھ کر محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے ہم انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔‘

موجودہ صورتحال میں اپنے کردار کی کچھ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ’ہوسکتا ہے کہ میں نے آپ کو تاثر دیا ہو کہ میری فکریں اور ترجیحات کچھ اور ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگوں کو میرے لفظوں سے ٹھیس بھی پہنچی ہوگی۔‘

غرور و تکبر چارلس ڈیگال سے لے کر فرانس کے موجودہ حکومتی نظام یعنی ففتھ ری پبلک کے تمام صدور کا خاصا ہے، (اور میکرون چارلس ڈیگال سے خاص عیقدت بھی رکھتے ہیں)۔ اس غرور و تکبر کی وجہ سے خود پر تنقید (self critisim) کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔ موجودہ صدر نے اپنے خطاب میں جہاں امن بحالی کے لیے ‘تمام طریقے‘ استعمال کرنے کا عزم کیا وہیں یہ شکوہ بھی کیا کہ مظاہرین نے فرانس کی آزادی کو خطرے میں ڈالا اور اس بات پر زور دیا کہ اب کوئی یوٹرن نہیں لیا جائے گا۔

ان کا آخری دعوی پہلے سے طے شدہ فیصلے کے تحت جھوٹ پر مبنی تھا۔ گزشتہ ہفتے اس وقت یوٹرن دیکھنے کو ملا جب حکومت نے ایندھن ٹیکس میں اضافے کے فیصلے کو پہلے عارضی طور پر منسوخ کیا اور پھر کسی حد تک غیر معینہ مدت تک معطل کردیا۔ ایدھن ٹیکس میں اضافے کے فیصلے کی وجہ سے گزشتہ ماہ پیلی واسکٹ والوں کی تحریک (gilets jaunes) کو ہوا ملی تھی۔

یہ اقدام بھی بڑھتی ہوئی اس بغاوت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہی، جو ایک مخصوص سطح کی رنجش سے بڑھتی ہوئی عدم برابری کے خلاف ایک عام سطح کے غصے میں بدل چکی ہے۔

پیر کے روز میکرون نے کم آمدن پینشنرز پر ٹیکس کے فیصلے کی منسوخی، اس کے علاوہ اگلے ماہ سے ماہانہ کم سے کم اجرت میں 100 یورو اضافے، ساتھ ہی ساتھ تمام ملازمین کو سال کے آخر میں ٹیکس فری بونس دینے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے قدم پیچھے کی طرف کیے۔ اسی موقعے پر، انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اس دولت پر ٹیکس کو دوبارہ بحال نہیں کریں گے جسے فرانسوا متران کی جانب سے متعارف کیے جانے کے کچھ 3 دہائیوں بعد منسوخ کیا گیا تھا۔

اگر آئندہ ہفتے مظاہروں میں اضافہ ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اس پر اپنا ذہن بدل لیں۔ اگرچہ وسط نومبر سے کسی حد تک مظاہرین کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گرفتاریوں کی تعداد میں زبردست اضافہ بھی ہوا ہے، اور ان میں سے کئی گرفتاریاں پیش بندی کے طور پر بھی کی گئی ہیں۔ گرفتار شدگان میں ہائی اسکول کے طلبہ بھی شامل ہیں جو نصابی تبدیلی سے شاکی ہیں۔

سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ مظاہروں اور ان میں کیے جانے والے مطالبوں (جن میں سے چند کو تسلیم بھی کرلیا گیا ہے) کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت کی شرح 66 فیصد تک دیکھنے کو ملی، تاہم حال ہی میں محض چند فیصد کی ہی کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری طرف، صدر کی مقبولیت کم ہوکر 23 فیصد تک گرگئی، جبکہ ایک تازہ سروے کے مطابق ان کی مقبولیت کم ہوکر 18 فیصد رہ گئی ہے۔ درحقیقت 18 ماہ قبل میکرون کے منتخب ہونے کے جلد بعد ہی ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ انہوں نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اپنے انتہائی دائیں بازو کے مخالف میرین لے پین کو بڑی ہی آسانی سے شکست دی تھی، تاہم پہلے مرحلے میں وہ عوامی ووٹ کے محض ایک چوتھائی حصے کو ہی اپنی طرف متوجہ کرپائے تھے۔

میکرون نے خود کو بائیں اور دائیں کی روایتی جماعتوں کے ایک خوشگوار متبادل کے طور پر پیش کیا، لیکن ان کے ایجنڈے نے مرکزی دھارے کی جماعتوں کے اسی پرانے نیو لبرل راگ کو نیا دیدہ زیب روپ دیا اور ساتھ سیاسی ناتجربہ کاری کی تال بھی ملا دی۔ ان کی لی پین کے خلاف جیت تسلی بخش تھی، لیکن کبھی بھی ایسا کوئی امکان نظر نہیں آیا تھا کہ فرانسیسی انتخابی عمل سے روایتی قدامت پسند اور سوشسلٹ مانی جانے والی جماعتوں کی طلسم ربائی کے پیچھے چھپے اہم مسائل کو یہ سابق بینکر حل کر پائیں گے۔ زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا کہ ان کی ساکھ ’امیروں کے صدر‘ میں بدل گئی اور حواس باختہ ہوکر اپنے بڑی حد تک رجعت پذیر اصلاحات میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے ساکھ کو بہتر کرنے میں خاطر خواہ مدد نہیں ملے گی۔

میکرون کی یورپی اور وسیع پیمانے پر بین الاقوامی قیادت سے وابستہ خواہشات کو گرین کہلانے والے ایجنڈے کا خاص حصہ بنا دیا گیا اور ایندھن ٹیکس کو ماحولیاتی اقدام کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ مگر اس سے عدم برابری کے ساتھ ان لوگوں کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ تھا جو بڑے شہروں سے باہر رہتے ہیں اور روزگار کے لیے اپنی گاڑیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی بمشکل ضروریات زندگی پوری ہوپاتی ہیں اور وہ بجلی پر چلنے والی گاڑیاں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، نہ ہی وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرسکتے ہیں۔

یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی جب ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ماحولیاتی تبدیلی کے انکاری فرانس میں جاری مظاہروں کی مثال دے کر کاربن آلودگی کے خلاف اقدامات کو بے فائدہ ہونے کی دلیل دینے کی کوشش کی۔ وہ لوگ ایک خطرناک غلطی پر ہیں اور بلاشبہ وہ دنیا کو آئندہ نسلوں کے لیے ناقابلِ رہائش بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

پُرتشدد مظاہروں کے دوران گاڑیوں کو بھی نظرآتش کردیا گیا۔ تصویر: اے ایف پی
پُرتشدد مظاہروں کے دوران گاڑیوں کو بھی نظرآتش کردیا گیا۔ تصویر: اے ایف پی

میکرون حکومت اپنے اس خیال میں واضح طور پر غلطی پر رہی کہ معاشرے میں معاشی طور پر غیر مستحکم طبقات پر بھاری ٹیکس کا نفاذ گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے اقدام کے طور پر قابلِ قبول ہے۔

پیلی واسکٹ والے کسی ایک جماعت کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی طرف مائل نظر نہیں آتے اور اطلاعات ہیں کہ انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر احتجاج کے دوران آگ لگانے اور دکانوں کی توڑ پھوڑ کرنے میں کافی متحرک رہے۔ لیکن اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے، اور میکرون اپنی خراب حکومت کو لاحق اس چیلنج سے کیا سبق سیکھتے ہیں، ابھی کچھ بھی واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا۔


یہ مضمون 12 دسمبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں