اسلام آباد: روپے کی گرتی ہوئی قدر کے حوالے سے حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کا کہنا تھا کہ ایکسچینج ریٹ مستحکم سطح پر آگیا ہے اور مارکیٹ کی حالت کی عکاسی کر رہا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریوینیو میں ایس بی پی کے گورنر طارق باجوہ نے پینل کے سامنے ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد حال ہی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر پر بریفنگ دی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ایکسچینج ریٹس میں اتار چڑھاؤ عمومی طور پر طلب اور رسد پر منحصر ہوتی ہے اور حال ہی میں روپے کی قدر میں کمی گزشتہ سال کے 19 ارب ڈالر کے خسارے کی وجہ سے سامنے آئی۔

مزید پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی پر ایف آئی اے سے رپورٹ طلب

ان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے خلا کو کہیں سے تو پُر ہونا تھا، سینٹرل بینک چاہتا تو مارکیٹ میں مداخلت کرسکتا تھا یا مارکیٹ فورسز کے مطابق اسے چلنے دیتا۔

گورنر کا کہنا تھا کہ وسیع ترین ذخائر والے دیگر ممالک کے برعکس پاکستان نے بہتر حکمت عملی اپنا رکھی ہے جو ایکسچینج ریٹ کو ضرورت پر مدد اور وقت پڑھنے پر ایڈجسٹمنٹس بھی کرتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دونوں کام کر رہے ہیں، ایس بی پی نے ایکسچینج ریٹ کو دسمبر 2017 سے تبدیل ہونے سے روکے رکھا اور اس کے لیے 6 ایڈجسٹمنٹس کرنی پڑیں، جس کی وجہ سے ذخائر 18 ارب ڈالر سے 7.5 ارب ڈالر ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی، صدر مملکت کی عوام کو مقامی اشیا خریدنے کی تجویز

ان کے مطابق پاکستان کا موجودہ خسارہ 35 ارب ڈالر کے تجارتی خلا کی عکاسی کرتا ہے جس میں درآمدات 60 ارب ڈالر اور بر آمدار 24.5 ارب ڈالر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی حالیہ ایڈجسٹمنٹس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور برآمدات میں 0.7 فیصد کمی اور برآمدات میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

گورنر نے نشاندہی کی کہ کرنسی کی قدر بڑھانے سے درآمدات میں اضافہ ہوا، جو غیر ملکی زر مبادلہ کے خاتمے کا سبب بنا جبکہ اس کی وجہ سے ہماری صنعتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی ہدایات کی ضرورت نہیں، روپے کی قدر خود کم کی، وزیر خزانہ

ان کا کہنا تھا کہ 10 فیصد کے پولیسی ریٹ سے پاکستان میں سود کی شرح 4 سے 4.5 فیصد ہوگئی ہے جو خطے کے دیگر ممالک کے برابر ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سال کے آخر میں موجودہ خسارہ غیر مستحکم ہے تاہم سینٹرل بینک اور اس کے ذخائر پر دباؤ ڈالنے میں مارکیٹ کے جذبات نے بھی کردار ادا کیا۔

انہوں نے تصدیق کی کہ گزشتہ سالوں میں ایکسچینج ریٹ کو غیر ضروری اور مصنوعی طور پر بڑھایا گیا تھا تاہم سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اس کی قدر میں کمی کرکے اسے 124 روپے تک لے آئے تھے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی کافی نہیں تھا کیوں کہ صنعت پہلے ہی بے حد نقصان اٹھا چکی تھی، تاہم حال میں ہونے والی مزید قدر میں کمی سے ہم مستحکم سطح پر آگئے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 14 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں